• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رتھ فائو کے شہر میں خصوصی تحریر…ڈاکٹرصغرا صدف

sughra.sadaf@janggroup.com.pk
قدرت کا نظام سمجھنے کیلئے روحانی دنیا میں سفرکرنا پڑتا ہے۔جہاں الفاظ نہیں اشارے قوانین کا درجہ رکھتے ہیں۔ہماری ذات دو دنیائوں کی مسافر ہے۔ظاہرکے ضابطوں کے ساتھ ساتھ باطن کے احکامات پرتوجہ دی جائے تب ہی کائنات میں امن اور انسانیت کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔یوں تو ہر شخص میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی روح کی پکار سن سکے مگر معاشرے میں توازن رکھنے کیلئے کچھ لوگ چن لئے جاتے ہیں۔وہ اپنی ذات کو دوسروں کی بھلائی ،خدمت اور سکھ کیلئے وقف کردیتے ہیں۔یہ اُس کی مرضی ہے کہ وہ کس کو کب دوردیس میں جا کر خدمت پرمامور کردے۔خدمت خلق کی تعیناتی براہ راست رب ِ کائنات کی منشاسے طے ہوتی ہے۔رُتھ فائو میڈیسن کی ایک خوبصورت ڈاکٹر جوجرمنی کے شہر لپزیگ میں پیدا ہوئی ۔دوسری عالمی جنگ کے دوران جب اُس کی عمر چودہ پندرہ برس کے قریب تھی وہ مغربی جرمنی جا کرآباد ہوگئی۔میڈیسن کی ڈاکٹرنے زندگی کو انسانیت کے نام وقف کر دیا۔ہزاروں میل دور ہندوستان روانہ ہوئی ۔مگرکراچی شہر اور پاکستان کو اُس کی ذات کی شفقت کی ضرورت تھی۔سو یہیں ٹھہرنے کا حکم ہوا اور اسباب بھی میسر ہوئے۔کوڑھ جیسے موذی مرض سے ایک ترقی پذیر ملک کے بے آسرا مریضوں کا مرض اور صحت مند لوگوں کا خوف دور کرنے میں دن رات ایک کردئیے۔جب پاکستان میں پورے اعزاز اور احترام کے ساتھ مادام رتھ فائو کو دفنایا جا رہا ہے تومیں حیرت سے ان سڑکوں ،عمارتوں اور فضائوں میں اُس کی شعائوں کو تلاش کررہی ہوں۔جہاں اُس نے جنم لیا اور ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔جرمنی کو دو حصوں میں منقسم ہوتے دیکھا۔خلقِ خدا کو کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے دیکھا۔طاقتوروں کو سبقت کیلئے انسانی جانوں کے ساتھ بے رحم سلوک کرتے دیکھا۔رتھ فائوکے ابتدائی شہر کو اعزازحاصل ہے کہ اُس کی یونیورسٹی سے جرمنی کے معروف سائنسدانوں ،فلسفیوں اور سیاستدانوں نے تعلیم حاصل کی،اپنی دانش کو تخلیق میں ڈھالا۔کسی نے دنیا کو نظریات سے مالامال کیا تو کسی نے سائنسی ایجادات سے زندگی کی آسائشیں ممکن بنائیں۔ذات اور کائنات دونوں میں مثبت اور منفی قوتوں کی جنگ جاری ہےجو منفی اثرات کو مطیع کرلے وہ اصل معنوں میں سکندر کہلاتا ہے۔ٹوٹ کر جُڑنے اور مر مٹ کر اُبھرنے کی جو تاریخ جرمن قوم نے دنیا کے سامنے رقم کی ہے۔اُس کی مثال نہیں ملتی ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران مشرقی جرمنی کے شہر لپزیگ اور خاص کر ڈریزڈن مکمل طور پر تباہ کردئیے گئے تھے۔چرچ میں پناہ لینے والے سینکڑوں افراد بھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔مشرقی جرمنی کی معیشت تباہ حال اور عمارات بھی کھنڈر بن گئیں تھیں۔دیوارِ برلن کو ختم کرنے یعنی جرمنی کو دوبارہ ملک بنانے کے کیلئے بھی سب سے بڑا جلوس لپزیگ میں نکالا گیا۔سلام ہے جرمن پالیسی سازوں پر کہ انہوں نے صرف پچیس سال کے قلیل عرصے میں مشرقی جرمنی کے لوگوں اور اداروںکو مغربی جرمنی کے برابر لا کھڑا کیا ۔ اتحاد کے بعد مغربی جرمنی کے ہرفرد پر ایک مناسب ٹیکس لگا کر ایسٹ جرمنی کی تعمیر کیلئے فنڈقائم کیا گیا۔یہی وہ جذبہ تھا جس نے پورے ملک کو ایک پٹری پررواں کیا۔ ڈریذڈن میں بہت سے چرچ ، شاہی محل اور دیگر عمارات کے بچے کچھے نشانات ابھی تک اُسی حالت میں ہیں۔اگرچہ جلی ہوئی اور سیاہ عمارتوں کو دوبارہ اسی حالت میں تعمیر کیا گیا ہے۔مگر ظلم اور سیاہی کے جو نشانات بچ گئے تھے انہیں اُسی طرح فٹ کر دیا گیا ہے۔جب مسلم لیگ ن یورپ کے صدر ڈریذڈن میں موجود ان عمارتوں سے متعارف کرا رہے تھے تو اُن کی آنکھوں کے سامنے وحشت ناک منظر لہرانے لگے اور مرنے والوں کی چیخیں ہوا ہونے لگیں۔وقت کا جبر دیکھئے ظلم کرنے اور سہنے والے دونوں نہ رہے مگر بے جان عمارتیں نوحہ بن کر آج بھی ایستادہ ہیں۔ایک سبق ،ایک عبرت اور ہدایت اُن کی ہر اینٹ پر لکھی ہے۔سولہ صوبوں پر مشتمل ملک جرمنی کی اصل خوبصورتی اُس کے شہر وں کی کشادہ سڑکیں اور تاریخی ورثےکی نگہداشت ہے۔آج بھی سولہویں صدی کی تعمیر کردہ پتھروں کی سڑکیں موجود ہیں۔وہ اتنی مضبوط ہیں کہ شاید ہی مرمت کی ضرورت پیش آتی ہو۔ڈاکٹر عبدالستاراوراُنکی بیوی آنسہ ستار کافی عرصے سے لپزیگ میں موجود ہیں۔اُن کی ہمراہ ہی یونیورسٹی خاص کر شعبہ فلسفہ اور لائبریری کا دورہ کر کے بہت بھلا لگا۔جس ملک کی لائبریریاں طلبا سے بھری ہوں اُس ملک کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔جرمنی میں اسکول کالج اور یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مفت ہے۔اور یہ سہولت صرف جرمنی کے شہریوں کیلئے نہیں بلکہ وہاں پڑھنے والے تمام طالبعلموں کیلئے ہے۔دیگر ممالک سے آنے والوں کو صرف رہائش اور خوراک کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔جب ایک دنیا نے تعلیم کی فروخت کو معیشت بنا لیا ہے جرمنی کا یہ قدم وسیع تر خیر کیلئے ایک ایسی کاوش ہے جس کی تقلید کر کے دنیا جنت بن سکتی ہے۔سنا تھا جرمنی کی عورتیں وفادار ہوتیں ہیںجرمنی میں قیام کے دوران وفاداری کا عجب نظارہ دیکھنے کو ملا۔گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے معروف بزنس میں وحیداحمد رشید ڈریذڈن کے قریب ایک چھوٹے سے شہر گھیرہ میں اپنی دو بیویوں کے ساتھ ایک گھر میں مقیم ہیں۔ایک بیوی جرمن ہے اور ایک بیوی پاکستانی ہے مگر دوستی اور محبت کا یہ عالم ہے کہ ایک جان دو قلب کا معاملہ ہے۔جرمن بیوی سے ایک بیٹی صبا کو اپنی پاکستانی ماں سے بھی اُتنی ہی محبت ہے اور وہ دونوں کی آنکھ کا تارا بھی ہے۔یہ دونوں بیویاں وحید صاحب کا صرف گھر ہی نہیں سنبھالتیں بلکہ اُن کے کاروبار میں بھی اُن کی مدد کرتی ہیں۔خدا کرے اُن کی محبتیں باقی رہیں۔بات ہورہی تھی رتھ فائو کی تو زندگی کے صرف بیس سال جرمنی میں گزارے جبکہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ پاکستان میں بسر کیا۔اس لئے وہ پاکستان کا فخر ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ رتھ فائو اور ایدھی کے بعد انسانیت کے ناسوروں پر مرحم رکھنے کیلئے اُن کی جگہ کس کو ذمہ داری سنبھالی ہے؟

تازہ ترین