• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے خلاف اقدامات کی تیاریوں کی خبریں گرم ہیں جن کا تقاضا ہے کہ پاکستان بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار رہے ۔ تازہ ترین اخباری رپورٹوںکے مطابق پاکستان کے خلاف امریکی اقدامات میں پاکستان کا غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کرکے بھارت کی خواہش کے مطابق پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دینے کا فیصلہ بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے جغرافیائی حدود میں ڈرون حملوں میں اضافہ اور فوجی و اقتصادی امداد میں مزید کمی کی کی جاسکتی ہے جبکہ پاکستان کے بعض حکام پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کا عائد کیا جانا بھی زیر غور ہے۔برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق نیٹو اتحادی کا درجہ ختم ہونے اور دہشت گردی کا سرپرست ملک قرار دیے جانے کے بعد پاکستان کو نہ صرف ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی کا سامنا کرنا ہوگا بلکہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے حصول میں بھی دشواریاں پیش آ سکتی ہیں۔ دوسری طرف حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان مخالف امریکی اقدامات خصوصاً باہمی تعلقات کی کشیدگی میں اضافے کا سبب بننے والے حالیہ ڈرون حملے پر ردعمل کے اظہار کی خاطر امریکی شخصیات کے لیے ان کی پاکستان آمد کے پروٹوکول ضوابط سخت کرنے جبکہ چین، ترکی اور سعودی عرب کے لیے قواعد میں مزید نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق طے پایا ہے کہ جس عہدے کا امریکی افسر پاکستان آئے گا اسی عہدے کا پاکستانی افسر اس سے ملاقات کرے گا جبکہ اب تک امریکی حکام بالعموم منصب کے لحاظ کے بغیر بالاتر پاکستانی حکام سے کسی دشواری کے بغیر مل سکتے تھے۔ اس اصول پر عمل درآمد کا مظاہرہ امریکی سینیٹ کام کمانڈر جنرل جوزف ووٹل کی پاکستانی وزیر دفاع خرم دستگیر سے ملاقات کی درخواست کی نامنظوری کی شکل میں کیا گیا ہے۔ تاہم یہ محض ایک علامتی اظہار ہے جبکہ اصل ضرورت خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی ہے۔ صدر ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مثالی اور نتیجہ خیز کاوشوں کا اعتراف ،اس عمل کو آگے بڑھانے میں تعاون اور اس جدوجہد میں ہزاروں فوجی جوانوں اور شہریوں کی جانی قربانیوں پر پاکستان سے اظہار یکجہتی کے بجائے ، افغانستان میں سولہ سال سے جاری جنگ میں اپنے ملک کی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرکے جس طرح اپنے عوام اور عالمی رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے لیے کوشاں ہیں ،اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے مثال کامیابیوں ، خطے میں امن واستحکام کی مسلسل کوششوں اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے بھارت کے سازشی کردار سے عالمی رائے عامہ کو کماحقہ آگاہ کرنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ مؤثر اور سائنٹفک اقدامات کیے جائیں۔دنیا پر واضح کیا جائے کہ تمام دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین میں ہیں جہاں سے ٹھوس شواہد کے مطابق پاکستان کو بھی متواتر دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور جسے روکنے کے لیے پاکستان ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر اپنے طور پر باڑھ لگا رہا ہے جبکہ پاکستان کی ان کوششوں کو امریکی حکام نے مسلسل نظر انداز کرنے اور ڈومور کی رٹ لگائے رکھنے کی صریحاً غیرمنصفانہ روش اپنا رکھی ہے۔ خود غرضانہ امریکی پالیسیوں کے طویل تجربے کے بعد چین ، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب ، شنگھائی تنظیم کے ارکان اور دیگر ملکوں سے سرگرم سفارتی، تجارتی اور اقتصادی روابط مزید مستحکم کیے جائیں بیرونی بیساکھیوں کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا اہتمام کرکے دنیا پر ثابت کیا جائے کہ پاکستانی خوددار قوم ہیں اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ خارجہ پالیسی میں ان بنیادی تبدیلیوں کے حوالے سے قومی اتفاق رائے لازمی ہے لہٰذا ان معاملات کو نہ صرف یہ کہ پارلیمنٹ میں پوری شرح و بسط کے ساتھ زیر بحث لایا جانا چاہیے بلکہ ماہرین و تجزیہ کاروں سے مشاورت اور کل جماعتی کانفرنس کا اہتمام بھی کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین