• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیپلزپاٹی اور ن لیگ کے اقتدار پر مشتمل منتخب جمہوری حکومتوں کا وہ جاری عشرہ (18-2008) اختتام پذیر ہے جو عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری کو ممکن بنانے کےلئے وکلا برادری کی ملک گیر تحریک کا بڑا نتیجہ تھا۔ یہ تحریک اپنے آغاز میں ہی قومی اور عوامی بن گئی تھی۔ اس عشرے میں جمہوری سیاسی عمل کی روانی کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی عدلیہ اپنی بالائی سطح پر آئین کے مطابق اپنے کردار کی ادائیگی کی اہل ہوئی اور اس کی یہ اہمیت بتدریج بڑھتی جارہی ہے۔ ایک بڑی انقلابی تبدیلی یہ آئی کہ سول حکومتوں کی بدترین اور تشویشناک حکمرانی کے انتہا پر پہنچنے کے باوجود فوج نےاپنا روایتی کردار ترک کرکے ’’ سازگار حالات‘‘ کے باوجود مارشل لا نہیں لگایا اور اپنی انتظامیہ میں مداخلت کو کم تر کردیا جتنی کہ وہ قوم، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لئے بھی قابل ہضم رہی۔ ویسے بھی اسے سیکورٹی کے نئے خطرات کے حوالے سے سول حکومت اورفوج کے ناگزیر اشتراک کے طور پر لیا گیا۔ سلامتی اور خارجہ امور میں فوج اور سول حکومتوں کا ایسا ہی اشتراک تو امریکہ اور بھارت جیسی مستحکم اور بڑی جمہوریتوں میں بھی گورننس کالازمہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں سول ملٹری تعلقات اتفاق اور اختلاف کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ پاکستان میں تو اس سے ناراض ہوکر ایک گمبھیر صورتحال میں بھی دانستہ وزارت ِ خارجہ کو اجاڑا گیا حالانکہ افواج پاکستان نے سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے جمہوری و سیاسی عمل کو ہر حالت میں جاری رکھنے کے لئے اپنی اپروچ ہی تبدیل نہیں کی وہ اس عشرے میں سول حکومتوں کی دھماچوکڑی طرز کی گورننس کے متوازی، انسداد ِ دہشت گردی کی جنگ لڑتی رہی اور سلامتی کے نئے چیلنجز سے کامیابی سے نمٹتی رہی۔ آج اس کردار پر اندرون ملک اور بیرونی دنیا میں اس کی تحسین کی جارہی ہے۔
زیربحث رواں عشرے کی ایک عظیم کامیابی ہے کہ کچھ پیشہ ورانہ رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود پاکستانی میڈیا نے اپنے بڑھتے حجم، تاریخی کردار اور قومی ضرورتوں کے مطابق اسٹیٹس کو کی تمام تر قباحتوں کو بے نقاب کرنے، ان کی وجوہات اور بیخ کنی کے لئے آرا و تجاویز کا ایسا تیزتر سلسلہ شروع کیا کہ بدعنوان حکومتوں کے متوازی ’’میڈیا پریشر‘‘ ایک نئی طاقت اور چیک ثابت ہوا اور ہو رہاہے جس نے حکمرانوں کی من مانی کو مکمل ختم نہ بھی کیا تو ان پراحتساب کے دروازے کھول دیئے۔ ملک بھر کے عوام نے کمال صبر و تحمل کی انتہا کی مشکلات سے دوچار ہوتے ہوئے بھی سیاسی جماعتوں کو ان کےاقتدار کی باریاںپوری کرنے دیں اور دے رہے ہیں۔ انہوں نے روایتی جماعتوں کو (شاید) آخری موقع پھر دیا کہ یہ اپنی ماضی کی غلطیوںکاکفارہ ادا کرلیں۔ تازہ ذہنی سے ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے کچھ کریں لیکن پھر کرپشن، بدانتظامی، تھانہ کچہری کلچر، کنبہ پروری، ہوس اقتدار اورپارٹیوں میں قیادت کی آمریت اور غالب خاندانی سیاست مزید غالب ہوتی گئی۔آئین سے ممکنہ حد تک گریز پھر جاری رہا، بلدیاتی نظام کی آئینی ضرورت کو دباکر رکھا گیا۔ عدالتی عمل سے یہ بحال بھی ہوا تو اسے انتظامی مکاری سےبے اثر کردیا گیا اور خلاف میرٹ کنبہ پروری پہلے سے بھی بڑھ گئی۔ زراعت و صنعت اور قومی خدمات کے اداروں پر نااہل سربراہ مسلط کرکے اِجّڑ کے اِجّڑ ان میں داخل کرکے انہیں عوامی سے سیاسی بنا کرتباہ کردیا گیا۔ ہر دو سیاسی جماعتوں کو مافیاز کی معاونت حاصل رہی اورترقی کے نام پر جتنے بھی منصوبے/پراجیکٹس بنے وہ مالی گھپلوں اور بدانتظامی کے حوالے سے میڈیا میں خبروں، حالات ِ حاضرہ اور جملہ فالو اپ کے باعث مشکوک اور متنازع ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں میں ہی برسوں کی ڈھلتی قیادت کی جگہ کوئی مستعد، اہل اورتجربہ کار قیادت لے سکی نہ نئی نسل کاکوئی گوہر وجود پر سامنے آیا۔ آئےتو اک ابا اور پھوپھی کا لاڈلا اور دوسری وزیراعظم اباجی کی لاڈلی شہزادی۔ جنہیں پاکستان کے نظریے اور مقاصد کا کچھ پتا ہے، ملکی سیاسی تاریخ کا اور نہ گورننس کے تقاضوں کا۔ نہ سیاسی جماعتوں کے مطلوب کلچر سے کوئی شناسائی ہے۔ افسرشاہی اپنے مفادات کی اسیر رہتے ہوئے بدستور کرپٹ حکمرانوں بلکہ خاندانوں کی لونڈی بنی رہی۔
وفاقی ن لیگی حکومت کی الیکشن18ء میں سب سے بڑی گرفت سے یہ بنتی ہے کہ اس نے ظالمانہ اور بدعنوان نظام ٹیکس میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ کروڑوں کا غربا اور متوسط طبقہ اس کے غیرآئینی بوجھ اور ناانصافیوں میں بدستور دبا ہے اور پہلے سے ناجائز مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس چوری کے دھندے میں ایسے ہی مبتلا ہے جیسے یہ عشروں سے ہے جبکہ پسے عوام کی صورت اس کے برعکس، ان پر طرح طرح کے مزید بوجھ مسلسل لادے جارہے ہیں۔ میڈیا کی شدید تنقید کےبعد الیکشن کے آخری سال میں اب تعلیم و صحت کے چند دکھاوے (اور برائے پبلسٹی) کے چند اقدامات کئے بھی جارہے ہیں تو اس کےمتوازی تعلیم و صحت کے نظام کی بربادی اور تجارتی دھندہ بننے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہم کراچی اور لاہور جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں کوڑا کرکٹ تلف کرکے صفائی کا چلتا نظام برقرار نہ رکھ سکے اور اس کے لئےبیرونی کمپنیوں پر انحصار کررہے ہیں۔ اس میں بھی کرپشن بے نقاب ہونے لگی ہے۔ زراعت کی زبوں حالی بنیادی غذا اور سبزیوں کی پیداوار ختم ہوکر درآمد پر انحصار بڑھتا جارہا ہے اور درآمدی پھل سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں۔ 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے حصے بخرےکرکے صوبوں کے حوالے کردیئے گئے۔
بلاشبہ شہروں کے انفراسٹرکچر میں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس کے بینی فشری بھی امرا اپر مڈل کلاس اورمڈل کلاس گردو نواح میں غربا کی بستیاں عملاً بلدیاتی نظام نہ ہونے کے باعث مشکلات، سختیوں اور بیماریوں کا گڑھ بن گئی ہیں۔ جہاں نکاسی ٔ آب اور کوڑا تلفی کے لئے کوئی کمیونٹی انفراسٹرکچر ہے نہ کوئی نظام۔ پول لاہور کے حلقہ 120کے ضمنی انتخاب پر خوب کھلا اور کراچی تو اس حوالے سے کئی سالوں سے مسلسل رپورٹ ہو رہا ہے۔ اس سے دیہات ، چھوٹے شہروں اور قصبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کی حالت زار کیا ہے۔ پوری قوم اس حد تک مقروض کے ہر شہری ایک لاکھ 20ہزار کا مقروض ہے۔ کیا بنے گا آنے والی نسل کا؟ یہ کیسی حکومتی پالیسی تھی جبکہ شدید مالی بحران میں وی آئی پی کلچر کے اللے تللے بڑھتے ہی گئے۔
سب سے بڑھ کر اور سب سے مایوس کن صورتحال پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی رہی، جہاں حکمران طبقے کو مزید مراعات اور سیاسی تحفظ فراہم کرنے والی قانون سازی تو خوب ہوتی رہی لیکن پروپیپل حکمرانوں نے تو کیا کرنی تھی، اپوزیشن پارلیمانی جماعتیں بھی اس جانب قابل گرفت حد تک غافل رہیں۔ اتنا تو کرسکتی تھیں کہ عوام دوست مسودہ ہائے قوانین ٹیبل کر کے اکثریتی جماعتوں کو یا تو اس طرف آنے پر مجبور کرتےیا ان کی عوام دشمنی بے نقاب کی جاتی۔ انتہائی اہم قومی موضوعات پر پارلیمنٹ قومی مباحثے اور قانون سازی دونوں میں بری طرح ناکام رہی اس کی لاپروائی اور نااہلی بلاامتیاز حکومت و اپوزیشن بہت واضح ہے حالانکہ بگڑتے حالات اور ملک کو بحرانی کیفیت سے نکالنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری منتخب ایوانوں پر عائد ہوتی تھی۔ دیکھنا ہے کہ الیکشن 18ء کے حوالے سے متذکرہ صورتحال کےتناظر میں سیاسی جماعتوں کی پوٹڑیوں میں کیا ہے؟ بہرحال اختتام پذیر عشرے میں بہت کچھ وہ ہوا جس کے نہ ہونےسے قوم مایوس ہوچکی تھی اور بہت کچھ وہ جو حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کےلئے شرمناک ہے۔

تازہ ترین