• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیلی ناسور اور پاکستانی قیادت خصوصی مراسلہ…محمد خالدوسیم

1947ء میں برطانوی سامراج کے علاقے سے انخلاء کے بعد اقوام متحدہ کے تحت فلسطینی علاقے کو تین شناختوں میں تقسیم کرنے کے عمل نے دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ۔کرہ ارض پر پہلی یہودی ریاست کے قیام نے فلسطینی قوم کو مستقل عذاب میں مبتلاکردیا اور سامراج کے اس ناانصافی پر مبنی فیصلے نے انصاف کو پس پشت ڈال کر مظلوم فلسطینیوں کو ایک مسلسل جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ مغرب کی شے پر اسرائیل نے اقوام متحدہ کے کنٹرول میں مجوزہ علاقے اور فلسطینیوں کی مسلم ریاست کے علاقے پر قبضہ کر کے دھو نس اور طاقت کی نئی مثال قائم کر دی جس طرح 1947ءمیں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے کشمیریوں کو غلام بنانے کی کوشش کی اسی طرح اسرائیل نے پہلے 1947ءاور 1967ء میںبزور قوت فلسیطینیوں کو زیر اثر لانے کی سعی کی۔امریکی کانگرس نے 1995میں ایک قانون پاس کیا تھا ۔ جس کے تحت بیت المقدس کو اسرائیل کے دارلحکومت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو 31مئی 1999ءتک وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مگر آنے والے تمام صدور اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس فیصلے کو موخر کرتے رہے۔ بیت المقدس یہودیوں، عیسایوں اور مسلمانوں کیلئے یکساں مقدس شہر کے طور پر جانا جاتا ہے مگر گزشتہ ڈیڑھ ہزار سال سے یہ مسلمانوں کے زیر تسلط ہے اور مسلمان یہاں اکثریت میں ہیں جسے مغربی سامراج نے اپنی طاقت کے زعم میں اسرائیل کے ہاتھوں ظلم کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تمام پیش رو صدور کی روایات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک فرمان جاری کر دیا کہ امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کیا جائے ۔ موصوف کے خیال میں اس سے فلسطین میں امن کی راہ ہموار ہو گی ۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ آپ جلتی پر تیل چھڑکیں اور کہیں کہ اس سے آگ نہیں بھڑکے گی۔ اپنی الیکشن مہم کے دوران کئے جانے والے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کیلئے صدر ٹرمپ کو سب سے پہلے فلسطینیوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کا خیال آیا ۔ جس کا اظہار انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے صدارتی حکم کے ذریعے وزارت خارجہ کو امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کے حکم کے ذریعے کیا۔ قبل ازیں صدر ٹرمپ سات مسلمان ملکوں کے شہریوں پر امریکہ داخلے پر پابندی کا حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔امریکی صدر کے سفارت خانہ منتقل کرنے کے فیصلے نے مسلمان ملکوں میں غم و غصہ کی لہر پید اکر دی ہے ۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے فوری طور پر اسلامی کانفرنس کا اجلاس طلب کر لیا ہے ۔ عرب لیگ کا اجلاس بھی منعقد ہو رہا ہے مگر پاکستانی قیادت صرف دفتر خارجہ کے ترجما ن کے ذریعے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا کر خاموش ہو گئی ہے ۔ اس وقت پاکستانی قیادت کو واضح پالیسی پر عمل کرتے ہوئے مسلم امہ کی قیادت کا فرض انجام دینا چاہئے تھا۔ پاکستان نے ہر مرحلے پر فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔ مگر با اختیار وزیراعظم کے نا ہونے کی وجہ سے پاکستانی خارجہ پالیسی ناکام نظر آرہی ہے۔اگر کوئی با اختیار اور مقبول وزیراعظم ہوتا تو 1990ءکے عراق کویت بحران کی طرح فوری طور پر تمام مسلم ممالک کو اعتماد میں لے کر اس مسئلے کے حل کی کوشش کرتا ۔ قیادت کا فقدان پاکستان کے سفارتی، معاشی اور عوامی سطح پر واضح نظر آ رہا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر مسئلہ فلسطین کو اجاگر اور امریکہ کو سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے سے روکنے کیلئے بر ق رفتار سفارت کاری کی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستانی قیادت کو رسمی سفارت کاری کی بجائے پر موثر سفارت کاری کا راستہ اپنانا ہے ۔ تا کہ خلیجی ممالک میں پیدا ہونے والے اس بحران کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔

تازہ ترین