• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی نظام جمہوریت کا اولین تقاضا ہے کہ ملکی فیصلے ایوانوں میں کئے جائیں۔ ایوان میں کئے گئے فیصلے ہی معتبر اور ملک و قوم کے مفاد میں ہوتے ہیں۔ افغانستان کی دو جنگوں کی مثال لے لیں۔ دسمبر 1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر دھاوا بولا تو ملک میں آمریت کے باعث فرد واحد ضیاء الحق نے اس جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سوائے اپنے قریبی ساتھیوں کے، کسی سے مشورہ نہ کیا۔ پارلیمنٹ توتھی نہیں کہ اس جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی جاتی، پھر چند اصولوں اور ضوابط کے تحت امریکہ کا ساتھ دیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا اور پاکستان اس جنگ میں کود گیا۔ اس جنگ کے بطن سے کن قباحتوں نے جنم لیا یہ الگ موضوع ہے، تاہم یہ بات یقین سے کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے امن کی بربادی کا آغاز اسی جنگ سے ہوا، نائن الیون کے وقت بھی پاکستان میں آمریت تھی اور ایک فون کال پر پاکستان پھر امریکہ کے لئے فرنٹ لائن اسٹیٹ بن گیا۔ راتوں رات افغان پالیسی تبدیل ہوگئی تو جنگجو عناصر پاکستان پر پل پڑے اور انہوں نے جسد وطن پر جتنے گھائو لگائے ہیں ان سے کوئی ناواقف نہیں، اس حوالے سے چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے تحفظات بے جا نہیں، اپوزیشن نے بھی اسلامی عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت پر اعتماد میں نہ لئے جانے پر تحفظات ظاہر کئے تو چیئرمین سینٹ نے وزیر خارجہ کو بحث سمیٹنے کے لئے منگل کو طلب کرلیا۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق آرمی چیف کو فوجی اتحاد کا سربراہ کیوں منتخب کیا گیا، اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس کیا ہیں؟ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ حکومت ملک کو ایک اور جنگ میں دھکیل رہی ہے مگر ایوان کو بے خبر رکھا جارہا ہے، اگر اسلامی فوج کے اتحاد کے لئے ٹی او آرز سے ایوان کو آگاہ نہیں کرینگے تو بہت سے سوالات جنم لیں گے۔ چیئرمین سینٹ کی بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ بہتر ہے کہ اسلامی اتحاد کی سربراہی کے حوالے سے ٹی او آرز کو ایوان میں زیر غور لایا جائے، اس کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر غور کر لیا جائے۔ایسا نہ ہو کہ ہم کسی اور آزمائش سے دوچار ہوجائیں۔

تازہ ترین