• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن متوازن ہوگا،عمران شہباز اپنے ہیں جو بھی جیتا ٹھیک ہوگا،تجزیہ کار

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیرمملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ فیصلوں کے ذریعہ بھیانک اور بھونڈا مذاق سامنے آیا ہے، ان فیصلوں کے بہت دور رس نتائج ہوں گے، عمران خان کو اہل قرار دینے کے فیصلے سے کوئی مطمئن نہیں اگر عمران خان نااہل نہیں ہوئے تو نواز شریف بھی نااہل نہیں ہوسکتے، جو قانون عمران خان پر لاگو ہوا وہی نواز شریف پر ہونا چاہئے، سپریم کورٹ کو حدیبیہ کیس کے فیصلے کے ساتھ نیب ریفرنسز ختم کرنے کا بھی حکم دینا چاہئے تھا، نواز شریف کا سب سے بڑا قصور ان کی مقبولیت ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہی تھیں۔ پروگرام میں سیکر ٹر ی اطلاعات پیپلز پارٹی چوہدری منظور احمد ، سینئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی شریک تھے جبکہ تعلیم کے موضوع پر الف اعلان کے ریسرچر زوہیر زیدی سے بھی گفتگو کی گئی۔چوہدری منظور احمد نے کہا کہ عمران خان بار بار واضح طور پر نیازی سروسز کی ملکیت قبول کرچکے ہیں لیکن سپریم کورٹ کہتی ہے نہیں،پی ٹی آئی کا غیرملکی فنڈنگ کا سنجیدہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس بھیجا گیا ہے، سپریم کورٹ اس میں پانچ سال تک ریکارڈ چیک کرنے کی قدغن پتا نہیں کہاں سے ڈال دی۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں شہباز شریف اور عمران خان کا مقابلہ ہوگا، عدالتی فیصلوں اورلانڈری سے دونوں ایماندار قرار پائے ہیں، الیکشن توازن میں کرائے جائیں گے اور چونکہ دونوں اپنے ہیں تو جو بھی جیت گیا وہ ٹھیک ہو گا۔زوہیر زیدی نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔میزبان طلعت حسین نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور اعتزاز احسن کے بیانات سے لگتا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں اور سیاسی بھنور ایک دوسرے کوا پنی طرف کھینچ رہے ہیں، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ سامنے آسکتا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کے ذریعے پاکستان کی سیاسی ساخت تبدیل ہورہی ہے یا تبدیل کی جارہی ہے، کیا سیاستدان عدلیہ کے فیصلوں کا صحیح طریقے سے تجزیہ کررہے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ فیصلوں کے ذریعہ بھیانک اور بھونڈا مذاق سامنے آیا ہے، ان فیصلوں کے بہت دور رس نتائج ہوں گے، عمران خان کو اہل قرار دینے کے فیصلے سے کوئی مطمئن نہیں ہے، نواز شریف اور عمران خان کے فیصلے دیکھ لیں اور عوام کی آواز سن لیں، ملک بھر میں ماہرین قانون، وکلاء، تجزیہ کار اور عوام کا واضح ردعمل آرہا ہے، عمران خان کا نااہل نہ ہونا پاناما سے بڑا ردعمل تھا، نواز شریف کو غیروصول شدہ اثاثہ پر نااہل کیا گیا ، دوسری طرف عمران خان آف شور کمپنی قبول کررہے ہیں لیکن انہیں اہل قرار دیدیا گیا کہ چونکہ وہ کمپنی کے ڈائریکٹر یا شیئرہولڈر نہیں اس لئے وہ ان کا اثاثہ نہیں ہے، نواز شریف تو آف شور کمپنی کے مالک، ڈائریکٹر یا شیئرہولڈر نہیں تھے لیکن انہیں ایک ایسے اثاثے پر نااہل کردیا گیا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کیا، اس اثاثہ کی تشریح پاکستان میں نہیں ملی بلکہ ایک بلیکس لاء ڈکشنری سے لی گئی۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ن لیگ کا ہمیشہ موقف رہا ہے کہ سیاسی رہنما ووٹ کے ذریعے آنے اور جانے چاہئیں، پاناما کیس کو عمران خان عدالت میں لے کرگئے، پیپلز پارٹی پاناما کے ٹی او آرز پر متفق نہیں ہورہی تھی، نواز شریف کو اپنی بے گناہی کا یقین تھا اسی لئے پاناما پر تحقیقات کیلئے کہا، نواز شریف کو پاناما پر نہیں اقامہ پر نااہل قرار دیا گیا، اگر عمران خان نااہل نہیں ہوئے تو نواز شریف بھی نااہل نہیں ہوسکتے، جو قانون عمران خان پر لاگو ہوا وہی نواز شریف پر ہونا چاہئے، جب منتخب وزیراعظم کو گاڈ فادر اور سسلین مافیا کہا جائے گا تو سیاسی ادارے کی طرف سے بھی اسی طرح کا جواب آئے گا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ نواز شریف کو آج بھی فیصلے کیخلاف عوام کی حمایت حاصل ہے، نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر نچلی سطح تک جو ردعمل آیا وہ آج بھی برقرار ہے، جسٹس کھوسہ نے حدیبیہ پر 14 صفحات لکھے لیکن اسی سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس ختم کردیا، جے آئی ٹی رپورٹ پر نیب کے تمام ریفرنسز حدیبیہ پر بنے تھے، جے آئی ٹی نے کہا تھا کہ تمام منی لانڈرنگ حدیبیہ سے ہوئی، سپریم کورٹ کو حدیبیہ کیس کے فیصلے کے ساتھ نیب ریفرنسز ختم کرنے کا بھی حکم دینا چاہئے تھا، حدیبیہ کیس میں ریلیف چودہویں دفعہ سن رہے ہیں، توازن پیدا نہیں کرنا چاہئے بلکہ قانون کو لیگل فریم ورک میں کام کرنا چاہئے، قانون کے دو ترازو کبھی نہیں ہوسکتے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ ن لیگ کیلئے نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ اہم ہے، نواز شریف کا سب سے بڑا قصور ان کی مقبولیت ہے، اس مرتبہ نئی حلقہ بندیو ں کا بل سینیٹ سے منظور ہوجائے گا، وقت پر انتخابات ہونا پارلیمنٹ اور جمہوریت کیلئے بہتر ہے، مخالفین سمجھتے ہیں 2018ء کے الیکشن میں بھی ن لیگ کی اکثریت ہوگی اس لئے سینیٹ انتخابات سے خائف ہیں۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ عدالتی فیصلو ں کے پاکستانی سیاست پر دوررس اثرات ہوں گے، سپریم کورٹ کے فیصلوں سے تعین ہوگیا اگلی سیاست کس طرح کی ہوگی، آئندہ انتخابات میں شہباز شریف اور عمران خان کا مقابلہ ہوگا، عدالتی فیصلوں اور لانڈری سے دونوں ایماندار قرار پائے ہیں، یہ دونوں ایماندار تسلیم ہوئے ہیں تو اب انہی کا مقابلہ ہوگا، الیکشن توازن میں کرائے جائیں گے اور چونکہ دونوں اپنے ہیں تو جو بھی جیت گیا وہ ٹھیک ہوگا، پیپلز پارٹی کو سندھ دے دیا گیا ہے ،پنجاب میں صرف ن لیگ اور پی ٹی آئی رہ گئی ہیں ۔سہیل وڑائچ نے کہا کہ جب عدالتوں کے ذریعہ طے ہو کہ کون اہل اور کون نااہل ہے اور اس میں سے عوام کو چننا ہو تو اس پر ردعمل تو آئے گاپاکستان میں عدلیہ کا ماضی بھلانا بہت مشکل ہوگا، نظریہ ضرورت کے فیصلوں سے لے کر اسمبلیوں کی بحالی اور تحلیل کے فیصلے سامنے ہیں، اس صورتحال میں عدالتی فیصلوں پر خدشات مسترد کردینا اور اس پر شک نہ کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے، ممکن ہے نیتوں پر سوال اٹھانا درست نہ ہو، امریکا کی سپریم کورٹ بھی نظریات کے تحت فیصلے دیتی ہے۔سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ شہباز شریف وزیراعلیٰ رہے تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر بڑا نقصان ہوگا، اس سے ن لیگ میں فارورڈ بلاک بننا ممکن نہیں ہوگا۔چوہدری منظور احمد نے کہا کہ چیف جسٹس کو وضاحت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ کسی کا کوئی تعلق نہیں ہے، عمران جہانگیر اور حدیبیہ کیس کے فیصلوں پر حیرانی ہوئی ہے، حدیبیہ کیس کھولنے کیلئے ہم نے نہیں سپریم کورٹ نے کہا تھا، اب پانچ جج کہتے ہیں کیس کھولیں تین جج کہتے ہیں کیس نہیں کھل سکتا، عمران خان بار بار واضح طور پر نیازی سروسز کی ملکیت قبول کرچکے ہیں لیکن سپریم کورٹ کہتی ہے نہیں، ذوالفقار علی بھٹو آج بھی قبر میں انصاف کے منتظر ہیں، بھٹو کی زندگی میں نہیں تو کم از کم تاریخ میں تو ثابت ہوجائے کہ وہ قاتل نہیں، پی ٹی آئی کا غیرملکی فنڈنگ کا سنجیدہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس بھیجا گیا ہے، سپریم کورٹ اس میں پانچ سال تک ریکارڈ چیک کرنے کی قدغن پتا نہیں کہاں سے ڈال دی، اگر پانچ سال پہلے کسی ملک نے کسی پارٹی کو فنڈنگ کی ہو تو اس تناظر میں کیسے یہ قدغن لگائی جاسکتی ہے، الیکشن کمیشن کسی بھی پارٹی کی فنڈنگ کسی وقت بھی چیک کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ چوہد ر ی منظور احمد کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن قتل عام کا فیصلہ پارلیمنٹ نے نہیں عدالتوں نے کرنا ہے، پاناما ایشو کا فیصلہ بھی عدالت نے ہی کرنا تھا، ہم نے پاناما کا فیصلہ پارلیمنٹ میں کرنے کی کوشش کی ، وزیراعظم اس وقت مستعفی ہو کر تحقیقات کیلئے پیش ہوجاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی، تنازع ختم ہوتا نہیں آگے بڑھتا نظر آرہا ہے۔الف اعلان کے ریسرچر زوہیر زیدی نے کہا کہ الف اعلان کی درجہ بندی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر شائع کی جاتی ہے، پورے ملک میں پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کی تعداد میں بہت فرق ہے، پرائمری پاس طلباء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے اسکول دستیاب نہیں ہیں، بچیوں کے اسکولوں میں بچوں کے اسکولوں کی نسبت سہو لیات بہت خراب ہیں، تعلیم کے میدان میں آزاد کشمیر، پنجاب، خیبرپختونخوا اوراسلام آباد ٹاپ پر نظر آتے ہیں۔

تازہ ترین