بائیس تئیس برس پہلے کی بات ہے جب 5-K گلبرگ میں ملاقات ہوئی۔ یہ ’’پاسبان‘‘ کا دفتر تھا اور محمد علی درانی ’’پاسبان‘‘ کے صدر۔ منوبھائی سے تو غیرمشروط محبت تھی ہی کہ وہ میری پہلی کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ کا 82ء میں دیباچہ لکھ چکے تھے لیکن عباس اطہر سے یہ میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ منوبھائی نے بتایا کہ عباس اطہر اپنے اخبار کی اشاعت کا آغاز کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ میں بطور کالم نگار ان کے لئے لکھوں۔ میں نے فوراً ہامی بھرلی۔ گپ شپ کے بعد منو بھائی اور عباس اطہر خوش خوش واپس چلے گئے تو میں نے درانی صاحب سے کہا ’’یہ اخبار سال ڈیڑھ سال بھی نکال جائے تو بڑی بات ہے۔‘‘درانی صاحب نے حیران ہو کر وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’یہ دونوں مٹھے بابے بلا کے تخلیق کار ہیں لیکن اخبار کی کامیابی کے لئے کچھ اور قسم کی مہارتیں درکار ہیں اور فنکار ان سے عموماً عاری ہوتے ہیں۔‘‘ درانی صاحب نے مزید حیرت سے پوچھا ’’تو پھر فوراً ہامی کیوں بھرلی؟‘‘ عرض کیا ’’پہلی بات یہ کہ منو بھائی کو انکار ممکن نہیںاور دوسری بات یہ کہ میں منوبھائی اور عباس اطہر کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ بھلے سال ڈیڑھ کے لئے ہی کیوںنہ ہو۔‘‘یہ تھا منوبھائی کے ساتھ میرا رشتہ جو یقیناً یکطرفہ نہیں تھا۔ اب اس دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو مجھے ’’اوئے انارکسٹا‘‘ کہہ کر بلائے۔ روزنامہ ’’صداقت‘‘ جوائن تو بطور کالم نگار کیا لیکن میگزین سے لے کر ادارتی صفحہ تک مجھ پر مسلط کردیا گیا حالانکہ مجھے اس رول سے رتی برابر دلچسپی نہیں تھی لیکن پھر وہی منو محبت۔ ایک بار منوبھائی چھٹی پر گئے تو میں نے کہا ’’دودن سے زیادہ ناغہ نہیں چلے گا تیسرے دن کالم نہ آیا تو میں خود ’’گریبان‘‘لکھ کرچلادوںگا۔‘‘ اورپھر یہی ہوا۔ جتنےدن منوبھائی غائب رہے ’’گریبان‘‘ حاضر رہا۔ منوبھائی واپسی پر ہنستے ہنستے بے حال ہو کر کہتے رہے ’’اوئے انارکسٹا! میں تو شریف آدمی ہوں تو نے ’’گریبان‘ ‘ پر بھی گنڈاسہ چلا دیا۔‘‘دوسرا دلچسپ واقعہ ’’جنگ‘‘ میں پیش آیا جب ایک بار ’’گریبان‘‘، ’’چوراہا‘‘ میں اور ’’چوراہا‘‘ ، ’’گریبان‘‘ میں جاگھسا اور وہ بھی عنوان سمیت۔ میں نے منوبھائی کو فون کرکے کہا ’’منوبھائی!آج تو کمال کالم لکھا آپ نے جس کے سامنے میرا کالم بالکل پھسھسا لگتا ہے۔‘‘ منوبھائی کی مخصوص ہنسی دیر تک فون پر گنگناتی رہی لیکن اب کبھی ایسی کوئی غلطی نہیں ہوگی کیونکہ ’’جنگ‘‘ میںمیرا محبوب پڑوسی ہمیشہ ہمیشہ کےلئے کہیں اور منتقل ہوچکا۔ایک بار منوبھائی کا فون آیا، بولے ’’تمہارے میرے کسی چاہنے والے نے ہم دونوں کےلئے چیری کے کریٹ بھیجے ہیں۔ تم کسی کو بھیج کر اپنے کریٹ منگوالو۔‘‘ میں نے کہا ’’رہنے دیں منوبھائی! میں کسی کو کریٹ لینے ’’بیلی بور‘‘ سے ریواز گارڈن بھیجوں تو اس سے زیادہ بے تکی حرکت کیا ہوسکتی ہے۔ ‘‘اگلے روز ملازم نے بتایا ’’کوئی شریف نامی آدمی آیا ہے کہتا ہے میں منوبھائی کا ڈرائیور ہوں۔‘‘ میں نے کہا ’’فوراً بلائو‘‘ دیکھا تو شریف چیری کے ڈبے اٹھائے آ رہا ہے۔ ساتھ ہی ایک رقعہ تھا۔ شریف کے جانے کے بعد رقعہ پڑھا، لکھا تھا ’’ان چیریز کے ساتھ جو محبت اور خلوص لپٹا ہے وہ بازار میں نہیں ملتا۔ اس کے ذائقہ سے مطلع کرنا۔ شازیہ، محمدہ، حاتم اور ہاشم کو میرا پیار‘‘ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ فوراً فون کیا اور منوبھائی سے معافی مانگی تو ہنس کر بولے ’’اوئے انارکسٹا! تو نے جوسختی کا خول چڑھایا ہواہے، میں نے ’’دھنک‘‘ کے زمانے میں ہی اس کے اندر جھانک لیا تھا۔‘‘یہ تھے ہمارے منوبھائی ..... صوفی، درویش، مجذوب، محبوب اور ہیومن ازم کی علامت۔ کاش میں اس قابل ہی ہوتا کہ ان کی تعریف کرسکتا۔ ’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘اور اب میری پہلی کتاب کے لئے منو بھائی کے دیباچہ سے چند اقتباسات جس کا عنوان تھا ’’سوچوں کی پاتال، قدیم کتابوں کی باس‘‘ لکھتے ہیں۔’’حسن نثار مجھے لاہور ہلٹن اور چڑیا گھر کے درمیان برلب سڑک ملا۔ اس کتاب کا مسودہ میرے حوالے کیااور کہا ’’اسے پڑھو اور جو کچھ سمجھ میں آئے لکھ دو۔ دو تین صفحے، دیباچہ پرسوں لے لوں گا۔‘‘’’سوچا اس میں حسن نثار کی دھنک رنگ شرارتیں ہوں گی، بزرگوں کے ساتھ مؤدب گستاخیاں ہوں گی۔ ہم عصروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوگی۔ شوخیاں ہوں گی۔ پگڑیاں اچھالنے، ٹانگیں کھینچنے اور گدگدی کے بہانے چٹکیاں لینے کا عمل ہوگا۔ میرا کام بہت آسان ہوگا مگر جب پڑھنے بیٹھا تو معاملہ ہی الٹ تھا۔ نہ شوخیاں نہ شرارتیں نہ گستاخیاں نہ چھیڑ چھاڑ نہ شاعری نہ ادب..... کچھ بھی نہیں تھا۔‘‘زندگی کے تپتے ہوئے لق و دق صحرا میں پائوں کے چھالے تھےویرانوں میں کھو جانے والی آوازیں تھیںروزگار کے گھاٹ اترجانےوالے جذبات تھےیہ وہ حسن نثار نہیں جس سے میں پیار کرتا ہوں۔ یہ وہ حسن نثار ہے جومجھے احترام پر مجبور کر رہا ہے۔ یہ وہ حسن نثار نہیں جسے پڑھ کر میں خوش ہوتا ہوں۔ یہ وہ ہے جسے سمجھ کر میں پریشان ہو گیا ہوں۔ فرد ِ واحد نہیں ایک پوری نسل ہے جو ان خطوں میں بول رہی ہے۔ وہ نسل ہے جو آزادی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ جسے ہم نے جھوٹ، مکر اور فریب کی گھٹی دی۔ جس نے ہمارےقول و فعل کے تضاد میں ہوش سنبھالا۔ جنگل نماشہروں اور ویران آبادیوں میں پروان چڑھی یہ کتاب ایک بہت ہی قیمتی دستاویز کی حیثیت حاصل کرلے گی کہ اسے پڑھے بغیر اس نسل کےجذبات، خیالات اور محسوسات تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی۔‘‘