• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معیشت کی بحالی کو اپنی پہلی، دوسری اور تیسری ترجیح قرار دے کر میاں نواز شریف یقینا ملک کو بدحالی کی اس دلدل سے جلد از جلد نکالنا چاہتے ہیں جس میں وہ پچھلی حکومتوں کے کرپشن اور عوامی مسائل کے حل سے مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پھنس گیا ہے۔ ان کی اس سوچ کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن انہیں معیشت کی بحالی کا ایسا پروگرام متعارف کرانا چاہئے جس کے فوائد عام آدمی تک بھی لازماً اور کم سے کم وقت میں پہنچیں۔ بے لگام سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد ملک کے دوچار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جبکہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اس ہولناک معاشی تفاوت کی بڑی عبرتناک مثال ہے۔ یہ ملک جس کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 294/ارب ڈالرہے، جہاں 61/ارب پتی 250/ارب ڈالر دولت کے مالک اور دو لاکھ افراد کروڑ پتی ہیں، وہاں تیس سینیٹ یعنی بارہ روپے یومیہ یا اس سے بھی کم پر گزارہ کرنے والے افراد کی تعداد ممتاز بھارتی تجزیہ کار ارون دھتی رائے کے مطابق 45کروڑ ہے۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی معیار کی رو سے خط غربت سے نیچے ان لوگوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کی یومیہ آمدنی ایک ڈالر سے کم ہو۔ بھارت میں ایک ڈالر اس وقت تقریباً 55 روپے کا ہے اس معیار پر دیکھا جائے تو بھارت کی 80 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ بھارتی پلاننگ کمیشن کی اکتوبر 2011ء کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی دیہی آبادی تیس سال پہلے جب ”خوشحالی“ کا یہ دور شروع نہیں ہوا تھا، بہتر زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس دور کے آغاز کے بعد سے بھارت میں غربت سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد تقریباً تین لاکھ ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ملک میں، جہاں 60 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے، ایک گھنٹے میں دو کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ یہ شرح نیویارک یونیورسٹی اسکول آف لاء کے ادارے سینٹر آف ہیومن رائٹس اینڈ گلوبل جسٹس کی 2011ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں دی گئی ہے۔
بھارت میں بے پناہ معاشی ترقی کے باوجود عام آدمی کی اس بدحالی کا سبب سنگدل سرمایہ دارانہ نظام کا بے رحمی سے نفاذ ہے۔ بحیثیت وزیر خزانہ اور پھر بحیثیت وزیراعظم پچھلے دو عشروں کے دوران من موہن سنگھ کی پالیسیوں نے اپنے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے معاشی لبرلزم کے نام پر عالمی منڈی بنا دیا اور بھارت سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ملکوں کی پیداوار سے مقابلے کیلئے کسانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔یہ بینکار اور بیوروکریٹ من موہن سنگھ کی پالیسی تو ہو سکتی ہے مگر عام آدمی کے دکھ درد کا احساس رکھنے والے عوامی قائد کی حیثیت سے میاں نواز شریف کی پالیسی یہ نہیں ہو سکتی۔
میاں صاحب کو ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے جو مخصوص طبقات کے بجائے کسانوں مزدوروں سمیت پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ جن علاقوں میں جو قدرتی وسائل موجود ہیں وہاں ان کی مناسبت سے صنعتیں لگا کر مقامی آبادی کے لئے روزگار اور خوشحالی کے راستے کھولے جانے چاہئیں مثلاً تھرپارکر میں اعلیٰ اقسام کے گرینائٹ کے پہاڑ ہیں، اگر یہاں اس سے متعلق صنعتیں لگائی جائیں اور ضرورت کے مطابق سڑکوں کی تعمیر کر کے اسے علاقے سے باہر ملک کے دوسرے حصوں میں بھیجنے اور برآمد کرنے کا بندوبست کیا جائے تو لاکھوں مقامی افراد کی زندگیوں میں خوشیاں بکھیری جا سکتی ہیں۔ یہی کچھ بلوچستان کے معدنی وسائل والے علاقوں میں ہونا چاہئے۔ دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ صنعتوں کو فروغ دے کر مقامی آبادی کیلئے روزگار کے وسیع مواقع فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ معاشی ترقی کے لئے لوڈشیڈنگ کا کم سے کم وقت میں مکمل خاتمہ بھی نئی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے واجبات کی ادائیگی کر کے بجلی کی پیداوار میں فوری طور پر نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے یعنی موجودہ وسائل کی پوری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سرکاری مشینری میں اوپر سے نیچے تک پچھلے پانچ برسوں میں کرپشن کا جو جال بچھا رہا ہے،اس پر قابو پاکر خاصے وسائل فوری طور پر حاصل ہو سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ کرپشن کے مقدمات کی تیزرفتار پیشرفت میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اور اس کے نتیجے میں لوٹے گئے قومی وسائل ملک کے خزانے میں واپس آئیں گے۔ مختصر کابینہ کی وجہ سے بھی سرکاری اخراجات میں کمی آئے گی۔ اس کے نتیجے میں فراہم ہونے والے مالی وسائل سے دیگر ضروری مدات کے علاوہ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے واجبات کی ادائیگی کا سلسلہ بھی بلاتاخیر شروع کیا جا سکتا ہے۔
امن و امان کی صورتحال میں بہتری بھی نئی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مختلف قوتیں ملوث ہیں ۔ان میں بیرونی ایجنٹوں اور خالص جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لئے تو طاقت اور قانون کے ڈنڈے کا ضروری حد تک استعمال ناگزیر ہے لیکن سیاسی اسباب سے ہونے والی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بات چیت کا راستہ اپنانا ضروری ہے۔ بلوچستان میں سیاسی قوتوں نے جمہوری عمل میں شریک ہو کر علیحدگی پسندی کے رجحانات کے خاتمے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ خود مسلم لیگ (ن) کا بلوچستان کی حکومت میں شامل ہونا، عوامی شکایات کے ازالے میں امید ہے نہایت موٴثر ثابت ہوگا جبکہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مشترکہ حکومت اور مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات میں بظاہر کوئی خاص دشواری حائل نظر نہیں آتی۔ یہ مسئلہ کہ تحریک طالبان ملک کے آئین اور جمہوری نظام کو غیر اسلامی قرار دیتی ہے، حل کرنے کے لئے ممتاز اور محترم دیوبندی مکتب فکر کے علمائے کرام کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں۔ ان میں محترم مفتی رفیع عثمانی، جسٹس (ر) تقی عثمانی، مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا سمیع الحق جیسے حضرات کو شامل کیا جانا چاہئے۔ ان لوگوں کو طالبان کی قیادت پر اس حقیقت کو واضح کرنا چاہئے کہ پاکستان کا آئین تمام دینی مکاتب فکر کی مکمل تائید سے بنا ہے۔ پاکستانی جمہوریت ، مغربی جمہوریت سے بالکل مختلف ہے ۔ آئین کی رو سے اس ریاست کا مقتدر اعلیٰ اللہ رب العالمین ہے اور اس میں عوام کے منتخب نمائندے اپنی مرضی کے بجائے قرآن اور سنت کی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی کے پابند ہیں۔ اس کوشش کا امید ہے جلد مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔ بلدیاتی انتخابات کا جلد انعقاد شہری مسائل کے حل کیلئے ناگزیر ہے ۔
تازہ ترین