میلاد رسولؐ :غور طلب پہلو!

October 19, 2021

آج بارہ ربیع الاول کاوہ مقدس و متبرک دن ہے جب پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان اپنے ہادی، رحمت اللعالمین اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی خاکی دنیا میں آمد پرتشکر ومسرت کا مختلف طریقوں سے اظہار کرتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کے مداحین میں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جن کی کتابوں، مضامین، نعتوں اور گیتوں میں اعتراف کیا گیا ہے کہ آپ نے عصیاں زدہ دنیا بالخصوص جزیرہ نمائے عرب میں پھیلے ہوئے ظلم، جہل اور ستم کے اندھیاروں کو علم، عرفان اور انصاف کی ایسی روشنی میں بدل دیا جس سے متعدد ملکوں نے فائدہ اٹھایا ۔ اللہ کے آخری نبی ؐپر نازل ہونیوالی کتاب کے ایک ایک لفظ کی قیامت تک حفاظت کا ذمہ حق تعالیٰ نے خود لیا ہے اور اس کتاب کی عملی تفسیر یعنی سنت رسول ؐکی تحقیق و تدوین میں ایسی احتیاط برتی گئی جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ رسول مکرمؐ کی حدیث سے ظاہر ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم ؑکی تخلیق کے وقت بھی درجہ نبوت پر فائز تھے۔ اس قدامت و اولیت کے باوجود کرۂ ارض میں ان کی آمد تمام دیگر انبیاء کی بعثت اور وصال کے بعد کیوں ہوئی؟ اس سوال کا ایک کافی و شافی جواب تو یہ ہے کہ ربّ کائنات کی مشیت تھی کہ بہار اولیں آخر ہی میں آئے ۔ دوسرا یہ کہ رسول اکرم ﷺ انبیائے سابقین کے ادوار سمیت تمام زمانوں میں تمام انسانوں کے لئے نبی ؐ تھے اور قیامت تک تمام زمانوں کے لئے رحمت اللعالمین ہیں۔ مختلف زبانوں، قوموں او رمقامات کے لئے مبعوث کئے گئے تمام سابق انبیاء نبی آخر الزماں کی نشانیوں کے بیان کے ساتھ واضح کرتے رہے کہ ان کی شریعت قیامت تک قائم رہے گی ان کی دی گئی اس خوشخبری کو سورہ الم نشرح میں کئے گئے اس ارشاد الٰہی کی ایک صورت کہا جاسکتا ہے :’’اور (اے رسول ) ہم نے تمہارا ذکر بلند کردیا‘‘۔مقام مصطفی ؐ کی اہمیت کا ایک اظہار قرآن مجید کا یہ بیان ہے جس کے بموجب اللہ اور اس کے فرشتے نبی ؐپردرود بھیج رہے ہیں جبکہ صاحبان ایمان کوبھی درود و سلام کی اس سعادت میں شامل ہونے کی تاکیدی دعوت مسلسل دی جارہی ہے۔ اس ذیل میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آپؐکی بعثت کے لئے وہ وقت کیوں چنا گیا جب دنیا بالخصوص جزیرہ نمائے عرب گمراہی کے عمیق گڑھے میں گرا نظر آرہاتھا ۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک کامل ترین ہستی کی ضرورت ایسے وقت میں ہی پڑتی ہے جب حالات بالکل ناقابل اصلاح نظر آرہے ہوں۔جس نبیؐ نےشعب ابوطالب کے محاصرے جیسے جابرانہ ماحول اور ظلم وجور کے باوجودمکہ میں اللہ کی یکتائی پر ایمان رکھنے اور اطاعت کرنے والوں کی جماعت تیار کرلی اور بعدازاں مدینے میں پرانے دشمنوں کو رشتہ اخوت میں جوڑ کراور قبائل کو متفقہ میثاق پر یکجا کرکے دنیا کے سامنے فلاحی ریاست کا نمونہ پیش کیا۔اس نبی ؐ کے پیروکار نسبتاً بہتر حالات ، رسل و رسائل کی سہولتوں، رابطوں ، سفارتی طور طریقوں کی موجودگی میں دین متین کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی مخلصانہ اور مسلسل کوششیں کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ سفر آگے کی طرف نہ بڑھے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ صرف اسی طریقے سے ہم دنیا کو یہ سمجھانے کے قابل ہوسکتے ہیں کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے۔ ہم اپنے پڑوسیوں سمیت تمام ممالک سے امن و خیر سگالی کا فروغ چاہتے ہیں اور دنیا سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ کشمیر اور فلسطین سمیت تمام بین الاقوامی تنازعات کا پرامن تصفیہ کرنےاور افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے میں موثر کردار ادا کرے۔ امت مسلمہ کے تمام طبقے اپنی زندگیوں کو اپنے آقا و مولا کی سیرت طیبہ کے سانچے میں ڈھالنے کا عہد کرلیں تو ترقی و کامرانی کی راہیں خود بخود ہموار ہونے لگیں گی۔