شام پر ظلم کی شام کب ڈھلے گی

August 05, 2013

شام میں حضرت خالد بن ولید اور حضرت زینب کے روضے پر بمباری کے بعد عالم اسلام اور پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں، پریشان ہیں اور سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ شام کی قدیم تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ آموری، آرامی، فونیقی اور یہودی اقوام کا مسکن رہا ہے۔ شام کا دارالحکومت دمشق دنیا کا واحد قدیم ترین شہر ہے جو مسلسل آباد چلا آرہا ہے۔ صدیوں تک ملک شام آسیری، بابلی، مصری اور ایرانی حملہ آوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔ 333ق م میں اسکندر اعظم کے زیر تسلط آگیا تھا۔ 62ق م میں دمشق رومی سلطنت کا صوبائی دارالحکومت بھی رہا۔ بعدازاں رومی سلطنت دو ٹکڑے ہوئی تو یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ دمشق میں حضرت ایوب، حضرت یحییٰ، حضرت ذوالکفل علیہم السلام جیسے جلیل القدر انبیائے کرام کی قبریں بھی موجود ہیں۔ یہاں اسلام کی آمد 6ہجری میں ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم ”ہرقل“ کے نام دعوتِ اسلام کا نامہ مبارک بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خلافت صدیقی کے دوران مجاہدین اسلام نے رومیوں کو شکست دینے کے بعد ”یرموک“ میں انہیں محصور کرلیا۔محاصرہ جاری تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں معرکہ یرموک نے رومیوں کی کمر توڑدی۔ ”ہرقل“ بھاگ کر روم چلا گیا۔ شام حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سلطنت اسلامیہ کے11 صوبوں میں سے ایک صوبہ تھا۔ اموی خلفاء کے زمانے میں دمشق دارالخلافہ بنادیا گیا۔ 1616ء سے 1918ء شام خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ 1920ء میں معاہدہٴ سان ریمو کے تحت فرانس کے زیر کنٹرول آگیا۔ 1941ء میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانسیسی اور برطانوی افواج نے اس پر قبضہ کرلیا۔ لبنان جوکہ اس کا ایک حصہ تھا الگ ملک بنادیا گیا۔ 1944ء میں مصر اور شام کو ملاکر ”متحدہ عرب جمہوریہ“ کا قیام عمل میں لایا گیا اور جمال عبدالناصر اس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1961ء میں فوج نے بغاوت کردی۔ 1966ء میں فوجی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کے جنوب میں جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ 1974ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی شام نے بھرپور حصہ لیا۔ 1976ء میں شامی افواج لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی خانہ جنگی کے بہانے داخل ہوگئی۔
1980ء میں روس اور شام کے مابین تعاون اور دوستی کا 20 سالہ معاہدہ ہوا۔ 1987ء میں عیسائی ملیشیا اور شامی فوجی دستوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ 6 جون 1982ء کو اسرائیل نے لبنان میں وادیٴ بقاع پر حملہ کرکے 5 دن تک شامی فوج کو شدید نقصان پہنچایا۔ 11 جون 1982ء کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہو گیا۔1990ء میں کویت پر عراقی حملے کی شام نے مذمت کی اور اتحادیوں کے ساتھ اپنی افواج بھی خلیج بھیجی۔ عرب اسرائیل امن کانفرنس کے انعقاد کے لئے شام نے 1991ء کی امریکی تجاویز قبول کرلیں۔ 1992ء میں شام نے یہودی آبادی پر سفری پابندیاں ختم کردیں۔ 16جنوری1994ء میں شام نے جولان کی پہاڑیوں کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جو بے نتیجہ رہے۔ سعد حریری کے والد، لبنان کے مرحوم وزیراعظم اور بیروت کی تعمیر نو کرنے والے رفیق حریری کو 2005ء میں قتل کردیا گیا۔ ان کی موت کے بعد لبنانی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور تسلسل کے ساتھ مظاہرے کرنے لگے جس سے مجبور ہو کر شام نے، جسے رفیق حریری کے قتل کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، لبنان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔لبنان میں صدارتی انتخابات کے دوران حریری اور ان کے اتحادیوں کی شام کی حامی اپوزیشن سے چپقلش جاری رہی اور بالآخر لبنان کے انتخابات میں شام مخالفوں کو شکست ہوئی۔ اسی سال لبنان سے انخلا کے لئے شام پر شدید عالمی دباؤ بڑھ گیا۔ اس سلسلے میں مصر اور شام کے صدور کی ملاقات بھی ہوئی۔ شام کے صدر نے انخلا کی یقین دہانی کرائی۔ اسی سال شام کے لبنان میں 30 سال پورے ہونے پر امریکہ نے کہا کہ شام مشرقِ وسطیٰ میں ”جمہوری تبدیلیوں“ کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ 2006ء میں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا تھا ”ملک میں سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی سال شام نے 1300/ارب سے زیادہ کا بجٹ پیش کیا۔ انہی دنوں شام مخالف رہنما ”میرو نائٹ“ کرسچین کے رہنما ”بیار الجمیل“ کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 2007ء میں ایران اور شام کا اکٹھا اجلاس ہوا، جس کا بڑا مقصد خطے میں قیام امن تھا۔جب ”عرب بہار“ کی آمد ہوئی تو شام میں بھی 2011ء کو اعتدال پسند گروپ اپنے حقوق کیلئے اکٹھے ہوئے۔ شام میں حکومت اور انقلابیوں کی جنگ درحقیقت دو عالمی قوتوں کی جنگ ہے جس میں شامی مارے جارہے ہیں۔ بشار الاسد کو ایران، روس اور چند دیگر ممالک کی سپورٹ ہے جبکہ انقلابیوں کے پیچھے امریکہ اور چند عرب ممالک ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیمیں او آئی سی، عرب لیگ اور دیگر باہمی اتفاق واتحاد سے شام کے مسئلے کا فریقین کے لئے قابل قبول حل نکالیں۔