ملک میں ہنگامے اور مذاکرات

October 25, 2021

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی جانب سے اتوار کی صبح قوم کو دی جانی والی یہ خبر یقینا اطمینان بخش ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے مابین مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اوراحتجاجی شرکاء اب اسلام آباد کی طرف مارچ نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ ہر لمحہ ابتر ہوتی صورت حال کے پیش نظر سعودی عرب کے تین روزہ دورے میں مصروف وزیر اعظم کی ہدایت پر وزیر داخلہ نے ہفتے ہی کو بیرون ملک سے وطن واپس پہنچ کر مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک نیوز چینل سے ٹیلی فون پر گفتگو میںانہوں نے بتایا کہ مذاکرات میں کامیابی کے بعد ٹی ایل پی کے زیر حراست افراد کو چھوڑ دیا جائے گا اور ماضی میں کیے گئے معاہدے کے تحت فرانسیسی سفارتکار کو بے دخل کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق ٹی ایل پی کے لوگ منگل دوپہر بارہ بجے تک وہیں رہیں گے جہاں وہ اس وقت موجود ہیں جبکہ دونوں طرف ٹریفک کھول دی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پیر کو ٹی ایل پی کا ایک وفد بھی ہماری طرف آئے گا اور ان کے مسائل سے متعلق بات چیت شروع ہوگی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئندہ دو تین روز میں ان کے مسائل پر بات ہوگی تاہم احتجاجی مظاہرین اسلام آباد کی طرف مارچ نہیں کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز ٹی ایل پی کے مظاہرین نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا تھا۔ لاہور میں کالعدم تنظیم کے دھرنوں کا تازہ دور منگل سے شروع ہوا تھا تاکہ پنجاب حکومت پر تنظیم کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جائے جو ٹی ایل پی کے مرحوم بانی خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں۔سعد رضوی کو پنجاب حکومت نے رواں برس بارہ اپریل کو ایم پی او کے تحت حراست میں لیا تھا۔ تاہم منگل سے جمعے تک مظاہرین اور حکومت پنجاب کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکا بلکہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔صورت حال کی ابتری کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہفتے کو اسلام آباد کی طرف رواں مارچ روکنے کی کوشش میں باہمی تصادم اوردو طرفہ تشدد کے نتیجے میں فریقین نے خاصا جانی نقصان بھی اٹھایا اور ڈی پی او شیخوپورہ سمیت سو پولیس اہلکار اور بڑی تعداد میں مظاہرین زخمی بھی ہوئے۔ مظاہرین نے درجنوں گاڑیاں تباہ کر دیں جبکہ وزیرآباد میں مارچ روکنے کیلئے خندقیں کھود دی گئیں، انتظامیہ کی جانب مارچ روکنے کیلئے گرفتاریاں بھی کی گئیں، وفاقی دارالحکومت کو احتجاجیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے دیگر صوبوں سے پولیس کے تیس ہزار جوانوں کو طلب کرلیا گیا ۔ان حالات میں ملک بھر کی تاجر برادری کی جانب سے ایف بی آر کے اقدامات کے خلاف منگل کے روز سے راولپنڈی اور فیض آباد میں دھرنا دینے کے اعلان نے معمولات زندگی کو مزید مفلوج کرنے کے خدشات پیدا کردیے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت اگر مظاہرین سے طاقت کے بل پر نمٹنے کی کوشش کے بجائے کالعدم تنظیم کے ساتھ پہلے ہی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیتی تو شاید اس جانی ومالی نقصان اور افرتفری کی نوبت نہ آتی جس کا مظاہرہ اس عرصے میں ہوا۔ تاہم وزیر داخلہ کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے دعوے کے باوجود حالات اب بھی غیریقینی ہی ہیں۔ کالعدم تنظیم کے ذمہ داروں کا موقف ہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم نے جیل میں حافظ سعد رضوی کے ساتھ مذاکرات کرنے کا یقین دلایا ہے جس پر وقتی طور پر پیش قدمی روک دی گئی ہے اور حکومت سنجیدہ ہے تو بات ہوسکتی ہے جبکہ وزیر داخلہ نے بتایا ہے کہ منگل تک مظاہرین اپنی موجودہ جگہ پر ہی ٹھہرے رہیں گے۔ اس سے واضح ہے کہ پیر کو بات چیت میں مثبت پیش رفت نہ ہوئی تو معاملات پھر بگڑ سکتے ہیں لہٰذا فریقین کو قومی مفاد میں افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے کیونکہ دوسری صورت سب کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی۔