سینیٹ اور جرنیل

October 26, 2021

بہت سے فلسفیوں اور مورخین کا ماننا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو مختلف شکلوں میں دہراتی ہے۔ یہ تھیوری 2021میں افغانستان میں پیش آنے والے واقعات پر لاگو ہوتی نظر آتی ہے جن میں کئی تاریخی مماثلتیں موجود ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کا 1975میں ویت نام، سائیگون کی طرح شرمناک انخلا ہوا اور 1988میں افغانستان سے روسی افواج کی مکمل شکست اور پسپائی کی یاد دہرائی گئی۔ امریکی سینیٹ میں سیاستدانوں کی طرف سے امریکی جرنیل کو طلب کیا گیا۔ مارک الیگزینڈر ملی امریکی مسلح افواج کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین ہیں۔ وہ امریکی افواج کے 39ویں سربراہ ہیں جو تقریباً 38سال سے فوج میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا تعلق فوجیوں کے خاندان سے ہے جن میں ان کے والد بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں خدمات سر انجام دیں۔ جنرل ملی 2018 سے افغانستان میں آپریشن کے انچارج تھے۔ اس سے پہلے بھی وہ عراق اور افغانستان میں اپنے ملک کیلئے کئی بار خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ جنرل کو اب اپنی زندگی کے سنگین ترین بحران کا سامنا ہے۔ افغانستان میں اس کے اقدامات اور ناکامی پر سخت ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹ قومی ناکامی کی ذمہ داری جنرل پر عائد کر رہے ہیں ،یہ امریکی افواج اور سیاستدانوں کے درمیان واضح تصادم کی دلیل ہے۔

قدیم روم میں 60 قبل مسیح میں سیاستدانوں اور ایک حاضر سروس جرنیل کے مابین ایسی ہی تقابلی صورت حال پیش آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب انسانی تاریخ کی پہلی بڑی جمہوریہ تاریخ بنانے کے عمل میں تھی۔ رومی سلطنت پہلے ہی یورپ کے بیشتر حصوں میں پھیل چکی تھی۔ اس پر تین جرنیلوں جولیس سیزر، پومپیو اور مارکس کراسس نے حکمرانی کی، جنہوں نے سینیٹ آف روم کی رہنمائی کی، جو قابل ذکر اسکالرز، سیاست دانوں اور ایلیٹ رومن ممبروں پر مشتمل تھا۔ پومپیو کو سینیٹ اور سیاستدانوں کی اشیر باد حاصل تھی جبکہ جولیس سیزر کو خطرناک مہمات پر بھیجا گیا جہاں اس کی ہلاکت بھی متوقع ہو سکتی تھی۔ جولیس سیزر روم کے سب سے مشہور خاندانوں میں سے ایک تھا ۔ سیزر اب تک روم کا بہترین جرنیل تھا۔ سکندر اعظم کی طرح یہ بھی اپنی فوجوں کیساتھ مل کر لڑتا رہا۔ وہ جنگوں کی خود قیادت کرتا رہا اس کی یہ حکمت عملی انتہائی کامیاب رہی ۔ سیزر کو قتل کرنے کی آخری چال میں، سینیٹ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی افواج کو گیلک علاقوں میں لے جائے۔ گیلک علاقے موجودہ فرانس اوربلجیم ہیں۔ اسکے باشندے رومی حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے بہت سے رومی جرنیل اور سپاہی ان علاقوںکو فتح کرنے کی کوشش میں مارے جا چکے تھے۔ سیزر نے حکم کی تعمیل کی۔ لیکن اپنی حکمت عملی اور جرات کی بدولت غیر متوقع طور پر کامیاب رہا۔ اس پر مشہور الفاظ ’’وینی، ویدی، وکی‘‘ یعنی میں آیا، میں نے دیکھا، میں نے فتح کیاصادق آئے،جو برطانوی اور یورپی ادب میں گونجتے رہے۔ سیزر نے گیلک افواج کو تباہ کرکے سینیٹ کے عزائم کو خطرات میں ڈال دیا۔ وہ اسے معزول یا مردہ دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سیزر کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی فوجیں چھوڑ دے اور خود روم واپس آجائے۔ قیصر غدار نہیں تھا، وہ عقلمند تھا۔ وہ اپنے خلاف سازش کی بو سونگھ رہا تھا۔ جب اس نے روم کے قریب روبیکون دریا عبور کیا تو سینیٹ نے اس کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جیسے آج سینیٹ جنرل مارک ملی سے پوچھ رہا ہے کہ اس نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ شیکسپیئر کے ڈرامے میں سیزر کو روم کا عظیم ترین جنرل اور شہنشاہ دکھایا گیا ہے جسے رومن سازشیوں اور بروٹس جیسے سیزر کے دوستوں نے قتل کیا۔افغانستان کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی ناکامی پہلے دن سے طے تھی۔ وہ اصلاحات کی بجائے محکوم قوم بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جرنیلوں کے مشوروں کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے اور یکطرفہ طور پر فیصلہ کیا کہ کابل سے فوجیں واپس بلوا لی جائیں۔ الیکشن جیتنے کے لئے یہ ایک سیاسی تدبیر تھی۔ اس کے نتیجے میں، امریکی افواج ایک ذلت آمیز صورت حال سے دوچار ہوئیں۔اب الزام تراشی کا کھیل جاری ہے۔ چیئرمین سینیٹ کمیٹی آف آرمڈ فورسز، مسٹر مارک ریڈ نے سیکرٹری دفاع، چیئرمین سینٹرل آرمڈ کمانڈ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کیساتھ گھنٹوں بات چیت کی۔ ٹرمپ جیسے سیاستدانوں نے طالبان کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر کے تباہی کی بنیاد رکھی اور جرنیلوں کو اس کی تعمیل کرنے کا حکم دیا۔ سیاستدان فوج کو مورد الزام ٹھہرانا چاہتے ہیں۔ جب جنرل ملی سے پوچھا گیا کہ صدر بائیڈن نے ان کے مشورے کو نظرانداز کیا تو انہوں نے استعفیٰ کیوں نہیں دیا، انہوں نے انتہائی فصیح تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک جنرل ہیں صدر کو قانونی اور پیشہ ورانہ مشورہ دینا ان کی ذمہ داری ہے جسے قبول کرنا یا نہ کرنا انکی صوابدید ہے۔ جبکہ استعفیٰ دینا سیاسی خلاف ورزی ہوگی اور امریکی افواج سیاسی نہیں امریکہ کے آئین کے تحت کام کر رہی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں ناکامی کا الزام اب پاکستان سمیت دیگر عوامل پر ڈال رہا ہے۔ سینیٹ نے جب فوج کی بجائے سیاستدانوں کو غلطی پر پایا تو اب وہ بیرونی عوامل پر ملبہ ڈالنا چاہ رہے ہیں، افغان حکومت میں بدعنوانی اور پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کا الزام لگا رہے ہیں ۔ ایک بار پھر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں اپنی پالیسیز کی ناکامی تسلیم کرنے میں راہِ فرار ڈھونڈ رہے ہیں ۔ تاریخ ایک بار پھراپنے آپ کو دہرا رہی ہے جب رومن سینیٹ نے قیصر کی تذلیل کی،اور اس نے بھرپور طاقت سے جواب دے کر جمہوریہ کا خاتمہ کرتے ہوئے عنانِ اقتدار سنبھال لیا۔ امریکی جرنیلوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت قابل تعریف ہے جبکہ سینیٹ کی حکمرانی اور اختیار بھی قابلِ ستائش۔ سینیٹ میں جنرل ملی کے کہے گئے الفاظ معنی خیز ہیںکہ’’ یہ ایک لاجسٹک کامیابی ہے لیکن اسٹرٹیجک ناکامی ‘‘۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)