اب ہوگا کیا؟

October 26, 2021

ایک طرف ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں کمی کے بجائے تیزی آرہی ہے۔ اتحادی جماعتیں بھی اشارے دے رہی ہیں جن سے لگتا ہے کہ شاید وہ بھی آنے والے سیاسی موسم کو بھانپ چکی ہیں۔ نوٹیفکیشن کا معاملہ ابھی تک اٹکا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط بہت کڑی ہیں۔ بلوچستان میں تبدیلی آگئی ہے جس کی وفاق کو امید نہیں تھی اور اس کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا لیکن وہ اس تبدیلی کو نہیں روک سکی۔ ہم نے ایک کالم میں یہ ذکر بھی کیا تھا کہ جام کمال خان ڈٹے ہوئے تو ہیں لیکن علم الاعداد کے مطابق وہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان نظر نہیں آرہے۔ ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ وقت آنے پر ان کے بعض ساتھی ان کے مخالف گروپ کا ساتھ دیں گے اوریوں ان کا یہ دور ختم ہو جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل ایک اور کالم میں چیف الیکشن کمشنر کے برقرار رہنے کا بھی ذکر کیا تھا۔ ہم نے اکتوبر کے آخری دو ہفتوں سے حکومت مخالف تحریک کی شروعات اور نومبر سے اس میں تیزی آنے کے بارے میں بھی لکھا تھا۔

اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے نوٹیفیکیشن میں تاخیر حکومت کی بہت بڑی غلطی ہے اگرچہ اب اس میں زیادہ تاخیر نظر نہیں آرہی لیکن جتنی بھی تاخیر کی گئی یہ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ اس معاملے میں انا، ضد اور مفاد کے بجائے اہم ترین اداروں کی قدر و منزلت اور اہمیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ تاخیر کی وجہ سے مختلف افواہیں بھی گردش کررہی ہیں۔ اگر افواہیں درست ہوئیں تو اپنے ملک کو ذاتی انا کے بھینٹ چڑھانا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے۔ امید یہی ہے کہ اہم عہدوں پر تعیناتیوں کا نوٹیفکیشن اب مزید تاخیر کے بغیر جلد جاری کردیا جائے گا اور اس حوالے سے ملک کو ہیجانی کیفیت سے نکالا جائے گا۔

حکومتی دعوئوں کے برعکس ہر پاکستانی یہ جانتا ہے کہ ملکی معاشی صورتحال بہتر نہیں ہے اسی لئے آئی ایم ایف نے چھٹی قسط دینے کیلئےنئی اور مزید کڑی شرائط سامنے رکھی ہیںاور مذاکرات تعطل کا شکار ہونے پر مشیر خزانہ خالی ہاتھ واپس لوٹے ہیں۔ ملک پہلے ہی عفریت نما مہنگائی اور معاشی بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ حکومت مخالف تحریک کی بنیاد بھی اپوزیشن نے اس بار ان ہی دو نکات پر رکھی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس بار اپوزیشن کی تحریک کو عوامی پذیرائی ملے گی۔ حکومتی اتحادی بڑی جماعتوں نے گزشتہ دو تین دنوں میں جو بیانات دیئے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں حکومتی معاملات کچھ بہتر نہیں نظر آتے۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ حکومت جوش کےبجائے ہوش سے کام لے۔ جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہوگا یہ سب موجودہ نظام کا شاخسانہ ہے۔ اس لئے بارہا یہ ذکر کرچکے ہیں کہ اب اس نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے۔ کیونکہ جب تک یہ نظام رہے گا ملک سیاسی افراتفری اور حکومتیں عدم استحکام کا شکار ہوتی رہیں گی۔ اس لئے نظام کو تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔ کامیاب ممالک کی ترقی کی بنیاد بھی ایسا نظام حکومت ہے جس میں سیاسی بلیک میلنگ نہیں کی جاسکتی۔حکومتی دعوئوں اور وزیراعظم کے نوٹسوں کے باوجود مہنگائی پر قابو پانا اب ناممکن بن چکا ہےبلکہ اس میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں۔ عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ گیس، بجلی کے بھاری بھر کم بل کیسے ادا کرے اور پیٹرول وغیرہ کیسے ڈلوائے۔

آنے والے سرد مہینوں میں گیس کے نرخ نہ صرف عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گے بلکہ گیس بھی نایاب ہوگی۔ اسی طرح بجلی اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا ، چینی اور آٹے کے نرخ بھی مزید بڑھیں گے۔ اندر کی بات تو حکومت کو معلوم ہوگی لیکن نظر یہی آرہا ہے کہ حکومت کے پاس ان مسائل پر قابو پانے کی نہ کوئی حکمت عملی ہے نہ ہی سابقہ دعوئوں کے برعکس اہل اور ماہر معاشی ٹیم ہے۔ ویسے تو ہر دور حکومت میں تقریباً یہی ہوتا ہے کہ معاشی بحران اور مہنگائی کا حل بیرونی ممالک اور اداروں سے قرض حاصل کرنا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب جو صورتحال ہے وہ کچھ زیادہ ہی کشیدہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط جو پہلے کی ہیں اور جو نئی شرائط ہیں ملک کے معاشی بحران اور مہنگائی کی اہم وجوہات ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو بہتر کرے۔ وزیراعظم صاحب اپنی کیبنٹ اور ٹیم پر بھی غور کرلیں۔ حکومت اگر اہم ممالک کے ساتھ تعلقات اور خارجہ پالیسی پر فوری توجہ دے تو معاشی صورتحال اور برآمدات میں اضافہ اور بہتری آسکتی ہے۔ ایران کے ساتھ گیس کے معاملے پر توجہ دی جائے تو گیس بحران میں کمی آسکتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری سے نہ صرف مالی اور معاشی معاملات میں بہتری آسکتی ہے بلکہ گندم کی ضروریات پوری ہونے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ملکی خودمختاری پر سودے بازی ہو بلکہ تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہیں۔ حکومت کو اس کی وجوہات سمجھنی چاہئیں۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں کیا ہوتا ہے اور نظام کیسے اور کب تبدیل ہوتا ہے۔ اب تو عوام بھی گھبرانے لگے ہیں اور شاید حکومت بھی مطمئن نہیں ہے۔