سلگتے رہنے کے لئے

October 27, 2021

اس دنیا میں آدمی ساری زندگی ضروری کاموں میں مصروف رہتاہے۔ ایک تین سالہ بچے کے لئے یہ ضروری کام مٹی سے کھیلنا ہے، جب کہ ایک سائنسدان کے لئے ریاضی کی ایک نئی مساوات۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا، نیلسن منڈیلا اور ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے لوگ بھی ایک دن اٹھا لئے جاتے ہیں۔ صد حیرت کہ کاروبارِ دنیا پھر بھی چلتا رہتا ہے۔ یہاں پہنچ کر حیرت سے انسان سوچتا ہے کہ یہاں اس دنیا میں آخر اسے پیدا ہی کیوں کیا گیا؟

انسان کا کمزور جسم روزانہ کئی گھنٹے نیند کا مطالبہ کرتا ہے۔ بلڈ پریشر اور شوگر ذرا سے اوپر نیچے ہوں، یہ گر پڑتا ہے۔ ذرا کہیں چوٹ لگے، وہ دکھنے لگتا ہے۔دوسری طرف انسانی دماغ ساری زندگی کبھی ختم نہ ہونے والی خواہشات اور جذبات تلے دبا رہتا ہے۔دولت اور انتقام کی خواہش سمیت ان گنت جذبات ایسے ہیں، جو زندگی کھا جاتے ہیں لیکن ان کی تسکین نہیں ہو پاتی۔ آپ اسے ایک ملک کی بادشاہت دے دیجیے، اگلے روز صدام حسین کی طرح وہ ہمسایہ سلطنت فتح کرنے نکل کھڑا ہوگا:حتیٰ کہ نمونۂ عبرت بن جائے گا۔

انسانی ضروریات کا پیٹ بھی کہاں بھرتا ہے۔ آٹھ ارب انسانوں کی اکثریت روزانہ محنت مزدوری کرتی ہے توزندگی برقرار رکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ ایسے کمزور انسان سے، جس کی ضروریات، جس کی ذہنی اور جسمانی کمزوریاں اسے کسی قابل نہیں چھوڑتیں، جو لمحہ لمحہ اپنی خواہشات کے سامنے پھسلتا رہتا ہے، خدا آخرچاہتا کیاہے؟ مٹی کا ایک ایسا جسم، نوری اور ناری مخلوقات کے برعکس جو زیادہ دیر پاک صاف بھی نہیں رہ سکتا اور ذرا سی عبادت کے بعد تھک جاتا ہے۔ انسان اتنا کمزور ہے کہ وہ تو اپنی خواہشات، اپنے نفس کی مجموعی طاقت کا علم بھی نہیں رکھتا۔ وہ برائی پہ اکسانے والے اپنے نفس اور شیطان کو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا۔اس دنیا میں گاہے ایک انسان دوسروں کے ہاتھ کھلونا بنا رہتا ہے۔ عام انسانوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں، جو عمر بھر غلطیوں اور گناہوں سے پاک رہنے کا سوچ بھی سکے۔ قدم قدم پر پھسلتا، بہکتا اور لڑکھڑاتا ہوا انسان آخر جائے تو جائے کہاں؟

اہلِ علم کہتے ہیں : خدا نے انسان کو اس لئے ہرگز تخلیق نہیں کیا کہ وہ ساری زندگی ایک نمونہ عمل بن کر گزارے بلکہ انسانی تاریخ میں کامل نمونہ صرف ایک ہی ہستیﷺ تھی۔ انسان کو جان بوجھ کر کمزور بنایا گیا۔ ایک ایسی مخلوق جو خواہش اور ہدایت کے درمیان کروٹیں بدلتی رہے۔ اسے جان بوجھ کر ایک ایسی مخلوق بنایا گیا، جو ہمیشہ خدائی مدد کی محتاج رہے۔ اس نے اگرمکمل طور پر ہدایت یافتہ مخلوق بنانا ہوتی تو فرشتوں کی شکل میں وہ تو پہلے ہی موجود تھی۔ زمین و آسمان کی ہر چیز تو خدا کی تسبیح پڑھ رہی ہے، ان مخلوقات میں ایک اور کا اضافہ بھلا کیا معنی رکھتا؟ اس لئے خواہشات اور کمزوریوں سے بھرپور، قدم قدم پر لڑکھڑا تا ہواانسان پیدا کیا گیا۔ اسے خیرہ کُن عقل دی گئی۔ ایسی عقل کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر چیز شناخت کر کے اسے ایک نام دیا۔ بلیک ہول جیسی جو چیزیں نظر نہیں آ رہی تھیں، ان کا بھی سراغ لگایا۔ ایک ایسی مخلوق جو علم کی رو سے تو یہ بھی جانتی تھی کہ نظر آنے والی ساری دنیا صرف پانچ فیصد ہے، جب کہ 95فیصد کائنات کوآنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی۔ دوسری طرف مادی طور پر یہ مخلوق ایک بلی اور بندر ہی کی طرح اپنی ضروریات پوری ہونے کی محتاج ہے۔ یہ دیکھ کر کیا آپ کو ترس نہیں آتا کہ آئن اسٹائن جیسا سائنسدان ایک دن اس بے بسی کے ساتھ مر جاتاہے، جیسے ایک بکری مرتی ہے۔ اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ آدمی کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان ساری زندگی مفلوج حالت میں گزار دیتاہے۔

انسان کو جو یہ عقل دی گئی، اس کی مدد سے اس نے خدا کو پہچاننا تھا۔ ایک اجنبی سرزمین میں، جہاں کے حالات و واقعات اس کے بس میں بالکل نہیں تھے بلکہ ایک پتا بھی ہلنے کے لئے خدا کا محتاج تھا۔ وہاں اسے قدم قدم پر خدا سے مدد مانگنا تھی۔ اسے پھسلتے رہنا تھا، معافی مانگتے رہنا تھا، کوشش کرتے رہنا تھا۔ یہ تھی خدا کی منشا۔ یہ خدائی عظمت کا ایک نشان تھا کہ اس نے زمین و آسمان کی ہر شے کا مالک ہونے کے باوجود ایک ایسی مخلوق پیدا کی جو اپنی مرضی سے زندگی گزارتی۔ جو کبھی ہدایت کی طرف جاتی، کبھی پھسل جاتی، پھر نادم ہوتی، پھر رجوع کرتی۔ پھر اس نے معاملہ یہیں تک محدود نہیں رکھا۔ یہ کہا کہ زندگی بھر کے گناہوں کے بعد بھی کوئی نادم ہو گا تو معاف کر دوں گا۔ اس نے توبہ کرنے والوں کو صرف معاف کرنے کا اعلان نہیں کیا بلکہ ان سے محبت کی۔ انسان کو زمین و آسمان کی سب سے خوبصورت تخلیق یعنی عقل سے نوازا گیا۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ ذرا سا غور کرتی تو خدا تک رسائی حاصل کرتی۔ یہ عقل ایک Tool تھی۔ اسے زمین و آسمان میں خدا کی نشانیاں دیکھتے ہوئے اس تک رسائی حاصل کرنا تھی۔ یہ عقل اس قابل تھی کہ دنیا میں اور اپنے اندر خدا کی نشانیوں کو پہچان سکتی۔

رہا آدمی تو وہ بھلا اس دنیا میں کر ہی کیا سکتاہے۔ وہ تو ساری زندگی دوسرے جانوروں کی طرح زمین سے اگنے والی چیزوں کا محتاج رہتاہے۔ عام انسان تو ایک طرف جلیل القدر ہستیاں بھی زندگی میں بار بار بے بسی کے عالم میں خدا سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ حالات کو ڈیزائن ہی اس طرح کیا گیا ہے۔ اس دنیا میں انسان کو سوز و ساز کے لئے پیدا کیا گیا تھا، سلگتے رہنے کے لئے۔ بس یہ تھی ساری داستان ورنہ قبرستان بخوبی بتاتے ہیں کہ آدمی کی بساط کیا ہے۔