شکریہ امان رمضان

August 08, 2013

کراچی ائیر پورٹ سے گاڑی نکل کر شاہراہ فیصل پرآئی تو شہر کے درو دیوار پر فرقہ وارانہ نفرتوں کااظہار دیکھ کر طبیعت بوجھل ہوگئی۔ میں نے حسرت بھرے لہجے سے کہا کہ کاش! رمضان المبارک کے آخری دنوں میں کراچی کی سڑکوں پر پھیلائی گئی، نفرتوں کی اس سیاہی کو کوئی مرد درویش امن کی سفیدی میں چھپا دے۔ میرے الفاظ سن کر ڈرائیور نے گردن گھما کر میری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں تائید تھی لیکن وہ زبان سے کچھ نہ بولا۔ اس نے اپنے خوف کو خاموشی کی چادر میں لپیٹنا مناسب سمجھا اور مجھے میرے ہوٹل میں اتار دیا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اسلام آباد سے پی آئی اے کی فلائٹ دو گھنٹے کی تاخیر سے آئی تھی۔ مجھے تین بجے برادر عزیز ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے عالمی شہرت یافتہ ٹی وی شو امان رمضان میں شرکت کے لئے ان کے سٹوڈیو پہنچنا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے معاون محمد ضیاء الحق نقشبندی مجھے لینے کے لئے آچکے تھے۔ ہوٹل سے نکل کر امان رمضان کے سٹوڈیو کی طرف روانہ ہوئے تو ایک دفعہ پھر کراچی کے درو دیوار پر نفرتوں کامکروہ کاروبار میری آنکھوں اور دل میں سوئیاں چبھو رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہا تھا کہ اے میرے پیارے رب کاش! کہ پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی، سنی تحریک، فنکشنل لیگ، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) یا کسی اور جماعت کی مقامی قیادت کراچی کی ضلعی انتظامیہ کوشاہراہ فیصل کے دائیں بائیں درو دیوار پر قابل احترام ہستیوں کے لئے لکھی گئی گالیوں کے بارے میں بتائے اور انتظامیہ سے کہے کہ اگر آپ ان شرانگیزیوں پر سفید رنگ نہیں پھیر سکتے تو ہمیں یہ نیک کام کرنے کی اجازت دے دیجئے۔ میں انتہائی بے چینی کے عالم میں تین بجے سے کچھ منٹ پہلے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے پاس پہنچا تو انہوں نے امان رمضان سٹوڈیو میں اپنی روایتی مسکراہٹ اور محبت کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ میں ان کی توجہ کراچی کی سڑکوں اور درودیوار پر پھیلی نفرتوں کی طرف دلانا چاہتا تھا لیکن ان کا پروگرام شروع ہوچکا تھا۔
جیسے ہی میں ان کے چھوٹے سے شہر امان میں داخل ہوا تو مجھے سب کچھ بھول گیا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور ان کی ٹیم نے اپنی محنت اور ذہانت سے امان رمضان کے سٹوڈیو میں ایسا ماحول پیدا کررکھا تھا کہ یہ جگہ مجھے نفرتوں کے سمندر میں ایک امن اور خیر کا جزیرہ محسوس ہوئی۔ قافلہ امان رمضان کے اصل قائد ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ہیں۔ کوئی ان سے لاکھ اختلاف کرے، ان میں سے ہزاروں کیڑے نکالے لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اپنی محنت اور خوبصورت انداز بیان سے امان رمضان کو صرف ایک ماہ کے اندر پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بنادیا۔ ان کے ٹی وی شو نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کردئیے ہیں۔ ان کے ناقدین اور حاسدین کہتے ہیں کہ مقبولیت اور شہرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورا پاکستان ان کا احترام بھی کرتا ہے سوال یہ ہے کہ آج پاکستان میں وہ کون سی زندہ شخصیت ہے جس کا سب ا حترام کرتے ہیں؟ یہاں تو ہر کوئی متنازعہ ہے، جو بھی اپنی محنت اور جدوجہد سے آگے بڑھتا ہے اس کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مجھے کئی دوستوں اور ساتھیوں نے کہا کہ ڈاکٹر عامر کے پروگرام میں مت جانا، یہ مشورہ دینے والے دو طرح کے لوگ تھے یا تو سیکولر انتہا پسند تھے یا پھر مذہبی انتہا پسند تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے کئی دن پہلے مجھے امان رمضان میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔میں ان کی محبت بھری دعوت کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا لیکن مصروفیات آڑے آتی رہیں۔ پچھلے ہفتے جب سی این این اور بی بی سی پر میں نے امان رمضان کی شہرت دیکھی تو مجھے ڈاکٹر عامر پر فخر کا احساس ہوا۔ ہم دونوں نے2002ء میں اکٹھے جیو ٹی وی کے لئے ٹریننگ سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس دوران ڈاکٹر عامر کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، کبھی انہوں نے خود ٹھوکر کھائی کبھی کسی نے پیچھے سے دھکا دے کر انہیں گرانے کی کوشش کی۔ ان کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگائے گئے ان کے خلاف کئی سازشیں ہوئیں لیکن پھر سازشیں کرنے والوں نے غلطی کا احساس ہونے پر ان سے معافی مانگی۔ آج نیویارک ٹائمز سے لے کر سی این این اور این بی سی سے لے کر بی بی سی پر ان کا ذکر ہورہا تھا ۔اس ذکر میں بھی کچھ نہ کچھ تنقید چھپی ہوئی تھی لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے پروگرام میں صرف مہمان بن کر نہیں طالبعلم بن کر بھی شرکت کرنی ہے اور یہ سمجھنا ہے کہ ایک شخص مسلسل چھ سات گھنٹے تک لائیو پروگرام کیسے کرتا ہے؟ سہ پہر تین بجے سے رات ساڑھے نو دس بجے تک اور پھر سحری میں بھی ٹی وی سکرین پر آبیٹھتا ہے۔ ناظرین کئی گھنٹوں تک ایک شخص کو اپنی ٹی وی سکرین پر کیسے برداشت کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے امان رمضان میں ساڑھے چار گھنٹے گزار کر مجھے تمام سوالات کا جواب مل گیا۔ انسان خطاکا پتلا ہے۔ ڈاکٹر عامر سے بھی اپنے پروگرام کے دوران خطائیں سرزد ہوتی ہیں لیکن ان کی ذہانت ،ان کا خلوص، ان کی محنت، ان کا خوبصورت اسلوب بیان اور سب سے بڑھ کر نیکی کا جذبہ ان کی ہر خطاء کو پس منظر میں دھکیل دیتا ہے۔ پیچھے رہ جاتے ہیں صرف حاسدین جن کے دل سے اٹھنے والے بدبودار دھوئیں کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں۔ کچھ حاسدین نے کہا کہ دیکھو اس ڈرامے باز نے اپنے پروگرام میں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں بانٹتے بانٹتے نوزائیدہ بچے بھی بانٹنے شروع کردئیے۔ منگل کو امان رمضان میں میری جناب رمضان چھیپا سے ملاقات ہوئی جو کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں سے نوزائیدہ بچوں کو اٹھاتے اور پالتے ہیں۔ چھیپا فاؤنڈیشن کی کوشش ہوتی ہے کہ بے اولاد جوڑے یا نیک دل لوگ ان بچوں کو گود لے کر ان کی پرورش کیا کریں۔ ڈاکٹر عامر نے چھیپا فاؤنڈیشن کے توسط سے ملنے والے نوزائیدہ بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے سپرد کرکے ان کی نیکی کو اجاگر کیا لیکن حاسدین نے کہا کہ یہ تو شہرت حاصل کرنے کا اوچھا ہتھکنڈہ ہے۔ حاسدین کے تمام الزامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ عوام کی بڑی اکثریت نے ڈاکٹر عامر کو جو پذیرائی بخشی ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ اس ملک کے کئی لبرل دانشور اور کٹھ ملا زمینی حقیقتوں سے بہت دور ہیں۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین امان رمضان میں ایک طرف مختلف مکاتب فکر کے علماء میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرتے رہے تو دوسری طرف محمود سلطانہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام غریب و مستحق لوگوں کی مدد کررہے تھے۔ ان کے شو کا سب سے اہم حصہ ذہنی آزمائش کا پروگرام”زیر زبر پیش“ تھا جس کی بے مثال کامیابی میں ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ عامر کا انتہائی اہم کردار ہے جن کی سکرین کے پیچھے دوڑ بھاگ نے مجھے یہ لکھنے پر مجبور کردیا ہے کہ ڈاکٹر عامر کی کامیابیوں میں اللہ تعالیٰ کے کرم اور ان کی والدہ کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان کی اہلیہ کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ میں امان رمضان کے سٹوڈیو سے روزہ افطار کرکے نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے مسجد کی طرف روانہ ہوا تو میرے دل سے اپنے دوست اور بھائی ڈاکٹر عامر کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔ وہ شہر کراچی جس کے درو دیوار پر نفرتیں اور سڑکوں پر لاشیں نظر آتی ہیں اس شہر میں ڈاکٹر عامر نے ا یک ماہ تک محبت اور خیر بانٹی۔ ڈاکٹر عامر کا بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ انہیں سلامت رکھے۔