قابلِ قدر تحفے

August 09, 2013

وہ بھی اگست کامہینہ تھا اور رمضان کی ستائیسویں مبارک رات جس میں ہمیں آزادی حاصل ہوئی تھی۔ہم جب عید کی نماز پڑھنے عید گاہ کی طرف چلے جو بستی سے ڈیڑھ دو میل دور واقع تھی‘ تو آزادی کی بے پایاں خوشیوں کے باوجود ہم بہت سہمے ہوئے اور بڑے خوفزدہ تھے، ڈر یہ تھا کہ ہندو اور سکھ ہماری گھات میں بیٹھے ہوں گے اور موقع پاتے ہی ہم پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ہر طرف سے خونریز فسادات کی خبریں آرہی تھیں ۔ ہمارے شہر سرسہ کی تحصیل میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور عام خیال تھا کہ یہ علاقہ دوسرے ملحق مسلم اکثریت کے علاقوں کے ساتھ پاکستان کا حصہ بنے گا۔ جب ہم خوف ودہشت کی فضا میں نماز ادا کر کے واپس آئے‘ تو ریڈ کلف ایوارڈ کا اعلان ریڈیو پر سنا جس کے مطابق فیروزپور اور گورداسپور کے مسلم اکثریتی اضلاع بھی بھارت میں شامل کر دیے گئے تھے۔قدرتی طور پر ہمیں بہت پریشانی لاحق ہوئی کیونکہ ہمارے شہر میں غیرمسلموں کی اکثریت تھی اور ان کے تربیت یافتہ اور مسلح جوان ہماری بستیوں پر ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر چکے تھے۔اگلے ماہ ہماری بستی کو مہاجر کیمپ قرار دے دیا گیا جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب ہمیں پاکستان کی طرف ہجرت کرنا اور اپنے مقدس اور آزاد وطن میں جا کر آباد ہونا ہے۔ہم پاکستان اس امید اور ولولے سے پہنچے تھے کہ اسے امن کا گہوارہ اور ایک مثالی ریاست بنائیں گے۔ 1947ء میں ہمیں خونخوار سکھوں اور ہندوؤں کا سامنا تھا جبکہ آج اسلام کے نام نہاد سرفروشوں کا سامنا ہے جو عبادت گاہوں‘ ہسپتالوں‘ اسکولوں اور انسانی بستیوں پر حملے کر رہے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو موت کی نیند سلا رہے ہیں۔سوچتا ہوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آزادی کی جو بیش بہا نعمت عطا کی تھی‘ ہم نے اس کی قدر نہیں کی اور اپنے رب سے جو پیمان وفا باندھا تھا‘ اُسے بیدردی سے پامال کرتے رہے اور یوں ہماری بد اعمالیوں کا اِک عذاب ہم پر مسلط ہو گیا ہے۔ اب گھر محفوظ ہیں نہ جیلیں نہ دفاعی تنصیبات اور نہ ایوانِ ہائے اقتدار‘ چنانچہ قیامِ امن کے لیے ہمیں لازمی طور پرزندگی کا ایک نیا اسلوب اختیار کرناہو گا۔
خوش قسمتی سے مجھے رمضان المبارک میں ایک نادر تحفہ موصول ہوا جس میں اُسی اسلوبِ زندگی کا ایک حسین مرقع پیش کیا گیا ہے۔یہ تحفہ ایک ایسی کتاب کی صورت میں ہے جو صدا بہار برکتوں اور نعمتوں کی ایک بے مثال دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِس کتاب کا نام… ”معاملاتِ رسول“صلی اللہ علیہ وسلم‘ہے جس میں سرورِدو عالم کی عملی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر اُبھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ معروف مصنف جناب قیوم نظامی نے اسے مستند حوالوں کے ساتھ نہایت دلکش پیرائے میں ترتیب دیا ہے۔بلا شبہ سیرتِ طیبہ پر اپنی نوعیت کی یہ پہلی کتاب ہے جس میں معاملاتِ زندگی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔عہدِ حاضر میں جناب نعیم صدیقی کی”محسنِ انسانیت “سیرت پر معرکتہ الآرا تصنیف کے طور پرذہنوں اور دلوں کو جلا بخشتی ہے۔علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی ”سیرت النبی“نے جدید تحقیق اور اور جدید اسلوبِ ِنگارش کے ساتھ ایک عہد کو متاثر کیا ہے۔اب ضرورت اس امر کی تھی کہ تین چار سو صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب تالیف کی جائے جس میں آقائے نامدار حضرت محمد کا اسوئہ حسنہ ان تفصیلات کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کے سامنے اُجاگر ہو جائے کہ آپ کے معاملات زندگی کیا تھے‘آپ ایک تاجر‘ایک معلم اخلاق‘ایک سیاسی مدبر‘ ایک سربراہِ ریاست اور ایک باپ اور ایک شوہر اور معاشرے کے ایک فرد کے طور پرآپ کے انسانی رویے کیسے تھے۔آپ نے انصاف کا نظام کیسے قائم کیا تھااور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کس انداز سے کی تھی۔دشمنوں کے ساتھ آپ کا طرزِعمل کیسا تھا اور بین الاقوامی معاہدوں کی نہج کیا تھی۔یہ کتاب جہانگیر بُکس نے بڑی آن بان سے شائع کی ہے اور یوں ہماری قوم کو معاملات ِزندگی میں سدھار پیدا کرنے کا ایک نسخہ کیمیا میسر آگیا ہے۔
رمضان المبارک ہی میں ہمیں ایک تحفہ جناب چودھری محمد سرور کی شکل میں قدرت نے عطا کیا ہے۔ اُن کے گورنر پنجاب مقرر کیے جانے پر اعتراضات بھی سامنے آئے ہیں‘مگر عملی فراست اور زمینی حقائق کے ہزار ہا پہلو اُن کی بہت زیادہ تائید نہیں کرتے۔کچھ یوں لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انتہائی مشکل حالات میں ایک جہاں دیدہ‘ تجربے کار اور خدمت ِخلق کے اعلیٰ جذبوں سے سرشار پنجاب کے ایسے گورنر کا انتخاب کیاہے جس نے برطانیہ کی پینتیس سالہ زندگی میں حکمرانوں کے بجائے قانون کی حکمرانی دیکھی ہے اور گڈ گورننس کے اعلیٰ معیار کے ثمرات سے فیضیاب ہوئے ہیں۔وُہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں اور اس امر کی شہادت دینے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں افرادموجود ہیں جنہوں نے اُن کی مسلم کاز کے ساتھ نا قابلِ شکست کومٹ منٹ کا مشاہدہ کیاہے۔فلسطین کا مسئلہ ہو یا کشمیر کا‘بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے پر مسلم بنگالی قیادت کو تختہِ ستم بنانے کا المیہ ہو‘ بوسنیا میں مسلمانوں کی بقا کا سنگین مسئلہ درپیش ہو‘یا عراق پر امریکی حملے کے خلاف مظاہروں کی قیادت کرنے کا مرحلہ‘ لوگوں نے اُنہیں ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے دیکھا۔اُن کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے اور پاکستان تواتر سے آتے اور عوام کے مسائل میں دلچسپی لیتے رہے۔اُن کا کہنا ہے کہ وہ گورنری کے منصب کو اُن پچھتّر لاکھ بچوں کو اسکولوں تک پہنچانے کے لیے بروئے کار لائیں گے جو علم کی روشنی سے محروم چلے آرہے ہیں۔
اس عظیم الشان منصوبے کے اخراجات برطانوی حکومت برداشت کرے گی اور تارکینِ وطن بھی اس میں حصہ ڈالیں گے۔ ان کا یہ عزم بھی راسخ معلوم ہوتا ہے کہ وہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان ایک پُل ثابت ہوں گے جو سیاسی‘ انتظامی ‘سماجی اور پارلیمانی تجربات حاصل کیے ہیں‘وہ انہیں اپنے ہم وطنوں تک پہنچائیں گے اور اپنے ملک میں صحت مند تبدیلی لائیں گے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شدید مخالفت اور اندھی عصبیت کے باوجود چودھری صاحب تین بار ہاوٴس آف کامنز میں منتخب ہوئے اور وہ پہلے مسلمان تھے جو پارلیمنٹ کے رکن بنے اور اب اُن کے صاحبزادے انس سرور اپنی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر ہیں۔آگے چل کر یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اس نادر تحفے کی بو قلمونیوں سے فیضیاب ہو تے ہیں یا جاٹوں‘ارائیوں اور کشمیریوں میں بٹے رہتے ہیں۔ہمیں اُمید رکھنی چاہیے کہ گورنر چودھری سرور اپنے منصب کے وقار اور عوام کے معیارِزندگی میں اضافے کے لیے ایک حکیمانہ کردار ادا کریں گے اور کامل جانبداری سے پورے پنجاب کے مفادات کا خیال رکھیں گے۔اُن کے ماضی میں تمام سیاسی قائدین بے نظیر بھٹواور چودھری پرویز الٰہی وغیرہ سے بھی تعلقات رہے ہیں‘اس لیے وہ ایک توازن قائم رکھ سکتے ہیں‘تاہم اُنہیں حوصلے اور عالی ظرفی سے کام لینا ہو گا کہ یہاں نکتہ چینوں کی بھی کچھ کمی نہیں۔
اس کٹھن کام کی بجا آوری کا زیادہ تر انحصار اس امر پر ہو گا کہ شریف برادران جنہوں نے بعض قریبی دوستوں کو ناراض کر کے انہیں بڑے چاوٴ سے اس منصب پر فائز کیا ہے وہ انہیں اپنے فرائض آزادی اور ہنر مندی سے ادا کرنے کی کتنی اجازت دیتے ہیں۔اُن کا باوقار اور دانشمندانہ طرزِعمل ہی مطلوبہ تبدیلی کی ضمانت دے سکتا ہے۔چودھری سرور صاحب کھلے بندوں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ برطانوی شہریت کو خیرباد کہہ کر اپنے وطن آچکے ہیں اور اب اُن کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔اب مناسب یہی ہو گا کہ کنکریاں پھینکتے رہنے کے بجائے اُن کو خوشدلی سے قبول کر لیا جائے‘ ان کے وسیع تعلقات اور بیش بہا تجربات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور وطنِ عزیز کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے پورے عزم کیساتھ اجتماعی جدوجہد کی جائے۔بدقسمتی سے آج ہمارا ملک لہو لہو ہے اور ہمارا دارالحکومت بھی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔