مثالی مسلم معاشرے کا قیام، علامہ اقبالؒ کا خواب تھا

November 09, 2021

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

اسلام کی آفاقی تعلیمات پر مبنی مثالی مسلم معاشرے کا قیام علامہ اقبال کا خواب تھا۔ اسی خواب کی تعبیر کے لیے انہوں نے برصغیر میں ایک الگ اور آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال کا پیش کردہ تصور ریاست اور حکومت محض ایک تخیل نہیں تھا بلکہ علامہ اقبال کو اپنے پیش کردہ تصور ریاست و حکومت کے عملی اطلاق کے حوالے سے بھی مکمل شرح صدر حاصل تھا ۔ وہ صرف فکری سطح پر ہی ایک ریاست اور نظام حکومت کے قیام کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ تھے کہ اس تصور کو عملی شکل میں کس طرح ڈھالا جائے گا۔

علامہ اقبال نے اپنے آخری سالوں میں جو نثری تحریریں لکھیں وہ ان کے تصور ریاست کی نظری اور عملی بنیادوں کو واضح کرتی ہیں۔ روزنامہ احسان میں شائع ہونے والا نظریہ وطنیت کے بارے میں ان کا مضمون اور آخری سالوں میں قائداعظم کو لکھے گئے علامہ اقبال کے وہ خطوط جنہیں بعد میں قائداعظم نے خود اپنے پیش لفظ کے ساتھ شائع کروایا اس حقیقت کا عملی ثبوت ہیں۔

آخری سالوں میں علامہ اقبال کی قائد اعظم کے ساتھ جو خط کتابت ہوئی وہ ان کے تصور ریاست حکومت کی تفصیلات کو بیان کرتی ہے۔ علامہ اقبال نے 28 مئی 1937 کے خط میں قائداعظم کو انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شکست کے اسباب سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کے حل اور آل انڈیا مسلم لیگ کی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے یہ اقدامات تجویز کیے:

1- مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ اقتصادی ہے لہذا اسے حل کرنے کے لیے مکمل لائحہ عمل مسلم قیادت کے پاس موجود ہونا چاہیے

2- مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کا حل قانون اسلام میں مضمر ہے اگر اسلام کا قانون معاش نافذ کردیا جائے تو مسلمانوں کے اقتصادی مسائل مکمل طور پر حل ہو سکتے ہیں

3- تاہم اسلام کے قانون معاش کے حقیقی فروغ اور نفاذ کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ آزاد مسلمان ریاستوں کا قیام ضروری ہے

4- سماجی مساوات ہندو معاشرے کے بجائے مسلمان معاشرے کی خصوصیت ہے۔ لہٰذا مسلمان معاشرے یا آزاد مسلم ریاستوں میں اس کا نفاذ زیادہ ممکن اور آسان ہے۔

5- وقت آگیا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک الگ مسلم ریاست یا ریاستوں کے قیام کے لیے جدوجہد کی جائے۔

اس خط میں علامہ اقبال نے لکھا کہ لیگ کو انجام کار یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ وہ مسلمانوں کے اعلی طبقہ کی نمائندہ بنی رہے یا مسلمان عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرے جنہیں اب تک نہایت بجا طور پر لیگ میں کوئی وجہ دلکشی نظر نہیں آئی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو عام مسلمانوں کی بہتری کی ضامن نہ ہو عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا: روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔

مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سالوں سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندوؤں کی سہو کاری اور سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصہ دار ہے اگرچہ ابھی قوی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کر کے رہے گا۔ یہ سارے مسائل حل کیسے ہوں، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اسی خط میں لکھا: خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلے کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ دور حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔

شریعت اسلامیہ کے طویل اور عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طور پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم اپنے معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی یہی وہ تحریر تھی جس نے قائد اعظم کو برصغیر کی سیاست کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدلنے پر مجبور کر دیا۔ متحدہ ہندوستان میں ہونے والے آئینی بندوبست کے اندر رہتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کرنے کی قائداعظم کی وہ جدوجہد جس میں میثاق لکھنو اور تجاویز دہلی جیسے اقدامات بھی شامل تھے اب مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے حصول کی منزل کی طرف مڑ گئی۔

حقیقی جمہوری روایت کا قیام، اسلام کی سماجی معاشرتی اور معاشی اقدار کو رو بہ عمل کرنا اور بین الاقوامی سطح پر انسانی وحدت کے امکانات کو بروئے کار لانا علامہ اقبال کے تصور ریاست و حکومت کے بنیادی اجزاء ہیں ۔ علامہ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ سماجی اور معاشرتی سطح پر اسلام کی روح جمہوری ہے لیکن صدیوں تک مسلم معاشرے کے شہنشاہیت کے زیر اثر رہنے کے باعث اسلام کی حقیقی روح جو اجتماعی زندگی کے سماجی، معاشی، معاشرتی اور قانونی و ثقافتی میدانوں میں سامنے آنی چاہیے تھی دنیا اس سے آشنا نہیں ہو سکی۔

خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے جب الگ اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا تو دیگر اسباب کے علاوہ ایک یہ سب بھی بیان کیا۔ علامہ اقبال نے فرمایا: اس لئے میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے لئے ایک متحدہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا۔ وہ اسلام کے لئے ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو جائے جو عربی شہنشاہیت نے اس پر ڈال دئیے تھے اور اپنے قوانین، تعلیم اور ثقافت کو حرکت میں لا کر ان کی اصل روح اور عصر جدید کے روح سے رابطہ قائم کر سکے۔

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک حقیقی جمہوری روایت کو مستحکم نہیں کر سکتا جب تک اس کے مزاج میں حریت موجود نہ ہو۔ علامہ اقبال نے بار ہا اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ دنیا کو حقیقی جمہوری روح سے صرف مسلم معاشرہ ہی آشنا کر سکتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ختم نبوت کے تصور نے مسلمانوں کو فکری طور پر مکمل آزاد اور نجات یافتہ قوم کا منصب دے دیا ہے ۔ اب یہی اصول جب ان کی معاشرتی، سماجی اور سیاسی زندگی میں بدلے گا تو اسلام کا حقیقی مقصد پورا ہوگا۔

اس پورے عمل کا عنوان علامہ نے روحانی جمہوریت قرار دیا۔ اپنی شہرہ آفاق تصنیف تشکیل جدید میں علامہ اقبال نے لکھا: مسلمانوں کے نزدیک زندگی کی بنیاد وہ حتمی اصول ہیں جن کی اساس زندگی کی گہرائیوں میں استوار ہے۔ اسلام کے اسی بنیادی نظریے کی رو سے کیونکہ اب مزید کسی نئی وحی کی ضرورت نہیں لہٰذا روحانی اعتبار سے صرف مسلمان ہی دنیا کی سب سے آزاد اور نجات یافتہ قوم ہیں۔ دور حاضر کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اس کی اہمیت کو سمجھیں اور ختم نبوت کے تحت ملنے والی حقیقی حریت کے اصولوں کی روشنی میں اپنی سماجی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کی از سر نو تشکیل کریں۔ اس طرح ہی وہ اسلام کے اس مقصد کو حاصل کر سکیں گے جو روحانی جمہوریت کے قیام پر مشتمل ہے۔

اسلامی ریاست نے عالمی سطح پر کیا کردار ادا کرنا ہے یہ پہلو بھی علامہ اقبال کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا۔ علامہ اقبال نے جب اسلامی ریاست یا اس کے نظام حکومت کی تفصیلات بیان کیں تو دوسری اقوام کے ساتھ رابطہ و تعلق اور ایک مشترکہ اساس پر وحدت انسانیت کے قیام کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ علامہ اقبال مسلمانوں اور اہل کتاب کو ایک مشترکہ اخلاقی مقصد کی تکمیل کے لیے باہم متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ علامہ اقبال نے لکھا: ہندوستان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کی ساری آبادی جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں کی اقلیتیں قرآن مجید کے الفاظ میں اہل کتاب میں سے ہیں۔

کسی یہودی، عیسائی یا زرتشتی کے چھونے سے مسلمان کا کھانا ناپاک نہیں ہوتا اور اسلامی قانون اہل کتاب کے ساتھ مناکحت کی اجازت بھی دیتا ہے۔ حقیقت میں اسلام نے ہی انسانیت کے اتحاد کی طرف پہلا قدم اٹھایا ۔ وہ قدم یہ تھا کہ جن لوگوں کا اخلاقی نصب العین ایک جیسا ہے انہیں اسلام نے اتحاد و اتفاق کی دعوت دی۔ عالمی سطح پر وحدت آدم کی بنیاد پر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل جہاں احترام انسانیت، برداشت اور رواداری کے اصول روبہ عمل ہوں۔ انہوں نے اسلامی ریاست کے مقاصد میں سے ایک مقصد قرار دیا۔ علامہ اقبال نے بقیہ دنیا کو دنیا کو بھی اس طرف متوجہ کیا :

اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام

پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدت آدم

تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود

اسلام کا مقصود فقط ملت آدم

مکے نے دیا خاک جنیوا کو یہ پیغام

جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم

پاکستان کو ریاست مدینہ کے نمونے پر جدید اسلامی ریاست میں ڈھالنے کے لیے علامہ اقبال کی فکر ہمیں جامع لائحہ عمل فراہم کرتی ہے۔ اس پر عمل پیرا ہو کر ہم نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کے سامنے بھی ہم ایک مثالی معاشرہ قائم کر کے عملی نظیر فراہم کر سکتے ہیں کہ آج کے دور کے انسان کو سماجی و معاشرتی انصاف، معاشی تحفظ اور حقیقی روحانی جمہوریت کی اقدار سے کس طرح متمتع کیا جا سکتا ہے۔