پاکستا نیوں کی پانچ خوبیاں

August 14, 2013

سارا سال ہم لوگ چن چن کر پاکستان کی برائیاں تلاش کرتے ہیں ،انہیں enlargeکرتے ہیں اور پھر ان کا کنگ سائز پوسٹر بنا کر چھاتی پر سجالیتے ہیں،جہاں کہیں ملک کی برائیوں کا ذکر ہوتا ہے ہم اپنا حصہ ڈالنے سے نہیں چوکتے اور کسی خوش الحان ساس کی طرح ہاتھ نچانچا کر وہ تمام برائیاں اپنی زنبیل سے نکال کر پاکستان کے منہ پہ مارتے ہیں جس سے ملک کا رہا سہا چہرہ مزید مکروہ ہو جاتا ہے ۔آج چونکہ پاکستان کا ”ہیپی برتھ ڈے“ ہے اس لئے کم از کم آج کا دن ہمیں اپنے ملک کو بخش دینا چاہئے اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج میں اپنے وطن کی کوئی برائی نہیں کروں گا بلکہ اس کی ایسی پانچ خوبیاں بیان کروں گا جن پر بطور قوم ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں :
1۔اگر آپ زندگی میں ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہیں،پیسہ کمانا چاہتے ہیں ،اپنی” کلاس“ تبدیل کرنا چاہتے ہیں یامتوسط طبقے سے چھلانگ مار کر بالائی طبقے میں جانا چاہتے ہیں ،تو پاکستان از دی کنٹری!اس ملک میں کم از کم ذات پات جیسا کوئی بیرئیر نہیں جسے ترقی کے لئے کراس کرنا ضروری ہو۔بھارت کے عاشقان زار کو یہ بات کڑوی گولی کی طرح نگلنی پڑ ے گی کیونکہ بھارت ماتا میں کلاس تبدیل کرنے کے لئے ذات پات اور دھرم شرم کی بے شمار رکاوٹیں دور کرنی پڑتی ہیں جن کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔ہمارے ملک کے بیشتر ارب پتی، سیاست دان، جرنیل، بیوروکریٹ، سرمایہ دار اور طاقتور ترین صحافی وہ لوگ ہیں جن کا تعلق عام گھرانوں سے ہے ،ان میں سے کوئی اکا دکا ایسا ہوگا جو ”ایلیٹ“ میں پیدا ہوا ہوگا جبکہ اکثریت نے محض اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر یہ مقام حاصل کیا ہے ۔فوج کے سربراہوں سے لے کر پاکستان کے امیر ترین اشخاص تک اور چوٹی کے صحافیوں سے لے کر طاقتور ترین سرکاری افسران تک، ایک لمبی فہرست ہے جو اس بات کا جگمگاتا ثبوت ہے کہ پاکستان میں ترقی کی راہ میں وہ رکاوٹیں حائل نہیں جن کا سامنا ایک عام آدمی کو بھارت جیسے ”مہان دیش“ میں کرنا پڑتا ہے ۔
یہاں دوباتیں نہایت دلچسپ ہیں ،اگر آپ ذرا بھی ٹیلنٹڈ ہیں اور مسلسل محنت کرنا جانتے ہیں تو کوئی مائی کا لعل آپ کی کامیابی نہیں روک سکتا (بشرطیکہ بد قسمتی آپ کے پیچھے لٹھ لے کر نہ پڑ جائے )،اور دوسری ،پاکستان میں عام آدمی کی ترقی کا عمل چونکہ قدرے سہل ہے اس لئے جو لوگ ٹیلنٹ کی کمی کے باعث اس عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں وہ ان کامیاب افراد میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے ہمارے ملک میں کرپشن، سفارش اور اقربا پروری کے بغیر کسی شخص کی کامیابی ممکن ہی نہیں ۔یہ درست ہے کہ ہمیں اپنے ارد گرد بے شمار ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو ہر قسم کا جائز ناجائز ہتھکنڈا استعمال کر کے اوپر جا پہنچتے ہیں مگر لطف کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ایسے لوگوں پر تنقید کرتے ہیں وہ پہلے ہی یہ تمام ہتھکنڈے استعمال کر کے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہوتے ہیں یا پھر ان میں یہ رسک لینے کی ہمت ہی نہیں ہوتی لہٰذا وہ ہر کامیاب انسان کو دو نمبر عینک لگا کر ہی دیکھتے ہیں۔اس ملک میں یقینا بے شمار خرابیاں ہیں مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ٹیلنٹڈ آدمی کے لئے یہ ملک مواقعوں سے بھرپورہے ،یقین نہیں آتا تو انڈیا سیٹل ہو کر دیکھ لیں، آنجہانی بال ٹھاکرے کی آتما کو شانتی مل جائے گی۔
2۔پاکستانیوں کا دوسری خوبی تو حیرت انگیز ہے ۔یہ پاکستانیوں کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے چار فوجی آمروں کے خلاف جدو جہد کی اورانہیں اقتدار سے باہر نکالا ۔جس ”عرب بہار“ کی پور ی دنیا میں دھوم مچی ہوئی ہے ہم پاکستانی وہ بہار مدتوں پہلے اپنے ملک میں لا چکے ہیں ۔ان عرب ممالک کے حکمرانوں نے تو اپنے ملک کے عوام کو تیس تیس چالیس چالیس سال تک غلام بنائے رکھا جبکہ پاکستان کے کیس میں تو یہ بات ہی لطیفہ لگتی ہے ۔ دور کیوں جائیں،ابھی چند برس پہلے عدلیہ کی بحالی جس طرح عمل میں آئی اس کی پوری دنیا میں نظیر نہیں ملتی ۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ پاکستانیوں کو کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا بلکہ پاکستان میں یہ”بہار“ سیاسی جماعتوں ،ان کے لیڈران اور عوام کی قربانیوں،سول سوسائٹی، میڈیا اور عدلیہ کے فعال کردار کی وجہ سے آئی۔جمہوریت کے خلاف تمام تر زہریلے پروپیگنڈے کے باوجود پاکستانیوں نے دہشت گردی کے سائے تلے ہونے والے انتخابات میں اپنی پسند کی جماعتوں کو کروڑوں ووٹ ڈالے ،دوسرے ترقی پذیر ممالک کم از کم اس ذیل میں ہمیں رشک کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں ۔اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتیں، ساٹھ سے زائد چنگھاڑتے ہوئے ٹی وی چینلز، طاقتور گروہوں کے خلاف نبرد آزما عدلیہ ،سیاست سے پرے ہوتی ہوئی فوج اور انتہا پسندوں کو ووٹ کی مدد سے مسترد کرتے ہوئے عوام…کم از کم ”عرب بہار “کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو اس معیار پر پورا اترتا ہو ۔لہٰذا ہمیں ان عرب ممالک کے ”التحریر سکوائر“ کی مثال دینے کی ضرورت نہیں الٹاانہیں ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
3۔گذشتہ دس برسوں میں پاکستان میں ایک ایسی تبدیلی آئی ہے جس کا ادراک پاکستانیوں کو بھی نہیں ہو سکا اور وہ تبدیلی حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ ناقابل یقین حد تک خوش آئند ہے۔ بطور قوم ہم جس narrativeکو اب تک قبول کرتے آئے ہیں اب ہم نے اس پر سوال اٹھانے شروع کر دئیے ہیں، پہلے اس narrativeپر تنقید کرنا تو دور کی بات اس پر سوال اٹھانے کی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہوتی تھی ،ریاست کے طاقتور اداروں نے جو رٹا دیا ہم نے رٹّو طوطے کی طرح رٹ لیا ،مگر اب اس thesisکے مقابلے میں سوسائٹی میں ایک anti thesis تشکیل رہا ہے جس سے معاشرے کی سوچ تبدیل ہو رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج سے دس برس قبل ہمیں جو بات ہضم نہیں ہوتی تھی آج اسی بات کو قبولیت کا درجہ حاصل ہے۔جس عمل کو ہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی تقسیم کہتے ہیں در اصل وہ اسی anti thesisکی وجہ سے ہے اور یہ بے حد خوش آئند بات ہے ۔جس معاشرے کے عام طبقات میں mythsکو چیلنج کرنے کا حوصلہ پیدا ہو جائے اس معاشرے کی ترقی رک نہیں سکتی، اگلے دس برس میں مکمل ہونے والے synthesisکا انتظار کریں۔
4۔کوئی شک نہیں کہ خواتین کے لئے اس ملک میں مثالی ماحول موجود نہیں لیکن اس کے باوجود سرکاری دفاتر ہوں یا ملٹی نیشنل کمپنیاں،تعلیمی ادارے ہوں یا بین الاقوامی فوڈ چینز، فائٹر جیٹ اڑانا ہو یا بنک یا ہسپتال چلانا ہو، پاکستانی خواتین نے اپنی ہمت اورقابلیت کا لوہا ہر جگہ منوا یا ہے ۔مغربی عورت کے بر عکس پاکستانی عورت گھر سے باہرملازمت کرنے کے باوجود امور خانہ داری سے مستثنیٰ نہیں ٹھہرتی ،شوہر ،بچوں اور ساس سسر کی ہانڈی روٹی اسی کی ذمہ داری رہتی ہے۔جس ملک کی پچاس فیصد آبادی ایسی با ہمت فورس پر مشتمل ہو ،اس کی خوبیوں کا شمار ممکن نہیں ۔
5۔پاکستانیوں کی اپنے بچوں سے لا محدود محبت ان کی ایسی خوبی ہے جس پر کھل کر فخر کر سکتے ہیں ،اپنے بچوں پر ا ن کے مستقبل پر جس طرح سے ہم خرچ کرتے ہیں دوسری اقوام اس بارے میں صرف رشک ہی کر سکتی ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ پر بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھانا جس میں صرف میٹرک نہیں بلکہ بیرون ملک تعلیم بھی شامل ہے ،ان کی خواہشات پر اپنی خوشیاں قربان کر دینا اور اپنی زندگی اولاد کی خاطر وقف کر دینا ،ایک ایسی خوبی ہے جس سے پاکستانی قوم کا اپنے بچوں کے لئے بے پایاں محبت کا ثبوت ملتا ہے ۔جس قوم نے اپنے مستقبل میں اس قدر وسیع پیمانے پر انویسٹمنٹ کر رکھی ہو وہ قوم اپنے مستقبل سے کیسے مایوس ہو سکتی ہے!