اسٹیٹ بینک کی جائزہ رپورٹ

November 26, 2021

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جائزہ رپورٹوں کا مقصد ایک جانب عوام، ماہرین معیشت اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اسٹیک ہولڈرز کو ملکی معیشت کی حقیقی صورت حال پر اعتماد میں لینا اور دوسری جانب کئی توجہ طلب امور کی نشاندہی کرنا بھی ہوتا ہے۔ بدھ 24نومبر 2021کو جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ بتاتی ہے کہ مالی سال 2021میں پاکستانی معیشت نہ صرف بحال ہوئی بلکہ حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر 3.9تک پہنچ چکی ہے۔ ان تجزیے سے یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے کہ پچھلے برس معیشت کی جو کارکردگی رہی اس کا تسلسل اس برس بھی جاری رہے گا۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے تو آنے والے دنوں میں صورتحال میں مزید بہتری کی امید ظاہر کی ہے۔ 24نومبر کو وزیراعظم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا افتتاح کیا جس کے تحت کارخانوں سے نکلنے والے مال کی نقل و حمل پر ٹیکنالوجی کی مدد سے نظر رکھی جا سکے گی اور اس طرح مالیاتی امور میں شفافیت لاکر ٹیکس گریزی کی روک تھام میں کمی لانا ممکن ہوگا۔ نئے ٹیکنالوجی مانیٹرنگ سسٹم کے دائرہ کار میں تمباکو صنعت کو پہلے ہی لایا جا چکا ہے۔ جبکہ شوگر انڈسٹری پر بھی یہ سسٹم لاگو کیا جارہا ہے اور بعدازاں سیمنٹ، کھاد اور اسٹیل انڈسٹری میں اس نظام کو نافذ کر دیا جائے گا۔ ایسے وقت، کہ حکومت معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لئے تعمیراتی صنعت کی حوصلہ افزائی کررہی ہے، یہ توقع درست ہے کہ 40سے زیادہ شعبوں کے ایک ساتھ متحرک ہونے کے باعث سرمائے کی گردش میں تیزی آئے گی اور یہ تیزی آبھی رہی ہے مگر سیمنٹ، سریا، ایلومینیم، بجلی کے تار جس انداز سے مہنگے ہوئے ہیں ان کی بنیاد پر متعدد شعبوں میں مانیٹرنگ کا سخت نظام لانے اور مہنگائی پر قابو پانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے تاکہ تعمیراتی انڈسٹری اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر شعبوں میں مطلوب فوائد حاصل کئے جا سکیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے حکومت کو حاصل ہونے والے ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا۔ اس حوالےسے وزیراعظم عمران خان کی یہ امید پوری ہونے کے امکانات قوی معلوم ہوتے ہیں کہ اس برس قومی خزانے میں زیادہ محاصل آئیں گے۔ اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 2020-21کے دوران معاشی سرگرمی میں توسیع ہونے کے علاوہ جاری کھاتے کا توازن دس برس کی کم ترین سطح پر آگیا جس کے نتیجے میں زرِمبادلہ کے ذخائر میں کافی اضافہ ہوا۔ اس باب میں دوست ممالک کی اعانت کے موثر کردار کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ سعودی عرب کی طرف سے فکسڈ اکائونٹ میں جمع کرائے جانے والے تین ارب ڈالروں اور موخر ادائیگی پر حاصل ہونے والے پیٹرول سے صورت حال کو بہتر بنانے میں مزید مدد ملنے کی توقعات ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ کورونا وبا کے پھیلائو کے اثرات دنیا بھر میں غیر معمولی اخراجات کے علاوہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بھی بنے تاہم اندرون ملک کئے گئے اقدامات سے ان کے نقصانات کم کرنے میں مدد ملی، مالیاتی خسارہ کم ہوا اورسرکاری قرضوں اور جی ڈی کا تناسب بہتر ہوگیا۔ رپورٹ میں اسٹیٹ بینک کی سیالیت کی اعانت اور دیگر اقدامات سے سرمایہ کاری کی مختلف صورتوں، کاروباری عناصر اور قرضہ لینے والوں کی ریلیف اور ڈیجٹلائزیشن کے فروغ کے اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ آئی ایم ایف کے مطالبات سمیت چیلنجز اب بھی سامنے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ان سب پر قابو پالیا جائے گا۔ تاہم ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کسی کی شرائط پر ہو یا ناجائز منافع خوروں کی بدولت، اس مسئلے کے منفی اثرات سے نمٹنے کی فوری تدابیر جلد سامنے آئی چاہئیں۔