خیر کی توقع کس سے کریں

November 26, 2021

گل وخار … سیمسن جاوید
بھانجے کی شادی پر پاکستان جانا ہوا،میں 11 سال بعد پاکستان گیا،میڈیا سے تعلق ہونے کے ناتے برطانیہ میں دن کا بیشتر وقت پاکستان میں عزیزوں ،سیاسی و غیر سیاسی دوستوں سے رابطے اور حالات و واقعات سے آگہی حاصل کرنے میں گزرجاتا ہے ،کوئی بھی ملک چاہے وہ آپ کے لئے جنت کے مترادف ہی کیوں نہ ہو، وطن عزیز کی مٹی کی خوشبو اور محبت آپ کے دل و دماغ نکال نہیں سکتا ۔11 سال کسی بھی ملک میں تبدیلی لانے کیلے بہت ہوتے ہیں ، دیکھنے اور سننے میں بہت فرق ہوتا ہے مگر پاکستان پہنچ کرجو دیکھا اس سے سخت دکھ اور بے حدمایوسی ہوئی، بہت مشکل ہے کہ حکومت کو یا عوام کو اس کا قصور وار ٹھہرایا جائے،اگرچہ موٹر وے کی تعمیر نے دور دراز کا فاصلہ کم کر دیا ہے مگر غریبوں کی حالت بد سے بد تر ہوگئی ہے،روزمرہ و ذاتی استعمال اور پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ،مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، غریب سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ کیا کھائے اور کیا پیئے، حکومتی وزیر دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں تمام دنیا میں ہے ، غریب کی حالتِ زار نہایت خراب ہے،لاہورکی فضا بہت آلودہ تھی، ہم یہ سمجھے کہ دھند ہے مگر پتہ چلا کہ یہ سموگ ہے ۔سموگ انسانی جان کے لئے انتہائی خطرناک ہے ،گلا خرا ب، نزلہ، زکام اورکھانسی مستقل بیماری بن گئے ہیں،ہر طرف ٹریفک کا اژدھام ہے، موٹر سائیکل اور رکشہ والے زبردستی راستے بنا لیتے ہیں، خطرے کی پروا کسی کو نہیں، انہیں تو بس آگے نکل جانا ہوتا ہے، گوجرانوالہ شیخو پورہ روڈ پر واقع مسیحی آباد ی فرانسیس آباد ہے جہاں کھیالی بائی پاس شیخوپورہ روڈ پچھلے چار سال سے زیرتعمیر ہے،وہاں مٹی ہی مٹی اوربڑے بڑے کھڈے پڑے ہوئے ہیں، 15 منٹ کا راستہ ایک گھنٹے میں طے ہوتاہے،فرانسس آباد پہنچے تو وہاں کاحال بیان سے باہر ہے،تمام گلیاں ٹوٹی پھوٹی اورجگہ جگہ کچرے کے ڈھیرہیں،نالیاں غلاظت سے بھری پڑی ہیں اور گٹروں کے ڈھکن غائب ہیں،35 ہزار سے زائد آباد ی میں نہ سرکاری اسکول ہے، نہ ڈاکخانہ ،نہ بینک نہ ہی ڈسپنسری موجود ہے ،وہاں کے بہت سے لوگ اوورسیز میں مستقل مقیم ہیں ۔تعلیمی شرح بھی خاصی اچھی ہے،یاد رہے کہ فادر فرانس نے فرانسس آباد کی بنیاد 1974 میں رکھی۔فادر نے ڈسپنسری ،ڈاکخانہ اور دیگر ضروریات کے لئے جگہ بھی مخصوص رکھی مگر لوگوں کی ہٹ دھرمی اور بیوقوفی کی وجہ سے ان جگہوں کا درست استعمال نہ ہوسکا۔ یہاں مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں ٹینکی تعمیر ہوئی مگر لوگوں کوصاف پانی میسر نہیں آیا،اب یہ ٹینکی لا وارث پڑی ہے، میری ملاقات ایک مقامی سابق ڈپٹی میئر سے ہوئی، جب میں نے ان سے فرانسس آباد کی حالت کا ذکر کیا تو ان کا جواب تھا،ہم اور کیا کریں گویا انہوں نے اس آبادی کے لئے بہت کچھ کیا ،پھر میں نے مختلف لوگوں سے ملاقات کی ،مختصر یہ کہ آج تک کسی بھی حکومت نے اقلیتوں کی فلاح و بہبود پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، اچھے عہدوں پر فائز اور صحت کے شعبہ میں خدمت کرنے والوں کو ا ب بھی مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑ تا ہے،جہالت کی یہ داستانیں سن کر سمجھ میں آیا کہ ترقی پزیر ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگ جویوکے یا یورپ میں مقیم ہیں انہیں ذات پات اور مذہبی تعصب کابالکل سامنا نہیں، ترقی یافتہ ممالک میں بھی آکر ہم نے مذہبی فوبیا نہیں چھوڑا۔ موجودہ حکومت نے تین سال اپنی حکومت بچانے اور اپوزیشن کودبانے،لوٹ کھسوٹ کا رونا رونے میں گزار دیئے، غریب مزید غریب ہو گیا، پچھلے تین سال میں کوئی قابل ذکرقانون سازی نہیں ہوئی،الیکڑانک ووٹنگ مشین کا قانون جسے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باوجود اجلت میں پاس کروا لیا گیا اور حکومت بہت خوش ہے ،الیکٹرانک مشین کے ذریعے ووٹنگ کے قانون سے اوورسیز پاکستانی جنہیں پہلے ہی دوہری شہریت حاصل ہے انہیں ا ب پاکستان میں ووٹ کا حق بھی مل گیا ہےحالانکہ پاکستان میں دوہری شہریت رکھنے والے پارلیمنٹ کے ممبر نہیں بن سکتے،اس قانون کے تحت بہت سے وزیروں او رمشیروں کو اپنے فرائض سے ہاتھ دھونا پڑے، ابھی تک پی ٹی آئی کے وزیر و ں اورمشیروں کے کیس چل ر ہے ہیں، کیا پی ٹی آئی کی حکومت اس قانون سے اوورسیز میں رہنے والوں کو ووٹ کا حق دے کر اس معاملے کو ختم کرکے اس قانون سے فائدہ اٹھانا تو نہیں چاہتی۔بہرحال یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس کا فائد ہ یا نقصان کیا ہوتا ہےجب کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا قانون غیر واضح ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ حکومت کی کارکردگی سے اووسیز میں پی ٹی آئی حکومت کی مقبولیت میں کمی آئی ہے جو تبدیلی کے خواہاں تھے اب مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔میں سیالکوٹ میں تھا کہ برطانیہ میں سابق میئر اور موجودہ کونسلر جیمز شیرا کا فون آگیا کہ آپ کی اور آئی سی سی کے چیئرمین ایڈووکیٹ قمر شمس کی ملاقات گورنر چوہدری سرور سے مقرر کر دی گئی ہے۔ ان کی چیف آف پرسنل رابعہ ضیاء آپ سے رابطہ کریں گی۔اگلے روز میٹنگ طے پا گئی۔قمر شمس کو میں نے کہا کہ چونکہ اس وقت اقلیتوں کا سب سے بڑا مسئلہ جبری تبدیلی مذہب و نکاح ہے،میں چونکہ فوری طور پر لاہور نہیں پہنچ سکتا آپ ہی بات کرلیجئے گا۔ اس سے پہلے مسیحی وکلاء کے وفد گورنر سے ملاقات کر چکے ہیں۔ وقت مقررہ پر ملاقات ہوئی ۔اقلیتیں صرف یہ چاہتی ہیں کہ ریاست کے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے،جب صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب میں شادی کی عمر مقرر ہے تو خلاف ورزی کرنے والے کو سز ادی جائے ،المیہ یہ ہے کہ شادی کو قانونی کرنے کے لئے مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا ہےجو جرم پر جرم ہے،گورنر پنجاب چوہدری سرور جن کی زندگی کا بڑا حصہ یوکے میں گزرا اور ان کے بچے یہیں پر مستقل قیام پزیر ہیں ۔وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں شادی کی حد مقرر ہے اور مذہب ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔اقلیتیں کسی سے کیا توقعات رکھ سکتی ہیں سوائے اس کے کہ اپنے گرد مضبوط قلعہ بنا لیں۔