سلیکون انگوٹھے!

November 27, 2021

ایف آئی اے سائبر کرائم کے کوئٹہ میں چھاپے کے دوران ایزی لوڈ شاپ کے مالک سمیت چار افراد کی گرفتاری، 16ہزار ایکٹیو سمز، 4ہزار سلیکون انگوٹھوں اور 30بی وی ایم ڈیوائسز کی برآمدگی کے واقعہ نے جعل سازی کا ایسا طریقہ بےنقاب کیا ہے جس نے بائیومیٹرک شناخت کے محفوظ سمجھے جانے والے طریق کار کی افادیت پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مذکورہ واقعہ پچھلے مہینے پیش آیا مگر ہفتہ رفتہ کراچی کی ڈیٹ لائن سے شائع شدہ ایک اور خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم نے گزشتہ 2برس کے دوران متعدد گروپ بےنقاب کئے تاہم تفتیش میں عدم دلچسپی پر عدالتوں سے ملزمان کو رہائی مل گئی۔ خبر کے مطابق سلیکون انگوٹھے جعل سازی سے موبائل سمیں کھلوانے سے لیکر بینکنگ فراڈ تک میں شہریوں کو لوٹنے کیلئے تیار کئے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور کچے کے علاقوں میں آن لائن فراڈ میں ملوث گروہ زیادہ متحرک ہیں اور ملک بھر میں جعل سازی سے حاصل کیے گئے انگوٹھوں کے نشانات کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کے لئے ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے۔ سلیکون انگوٹھے سوشل میڈیا کے جن گروپوں کے ذریعے فروخت کیے جاتے ہیں ان تک عام آدمی کی براہ راست رسائی نہیں، ڈارک ویب کے ذریعے مخصوص مراحل سے گزرنے اور فیس ادائیگی کے بعد سلیکون انگوٹھوں کی فروخت اور بولیاں لگانے کا مرحلہ آتا ہے۔ ایک سلیکون انگوٹھے سے کم ازکم چار سمیں ایکٹو کی جا سکتی ہیں جبکہ کئی دیگر معاملات میں بھی جعل سازی کے خدشات ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سمیت متعلقہ اداروں اور حکومتی سطح پر مذکورہ اطلاعات، ان کی ٹائمنگ، تفتیشی کیفیات سمیت تمام امور کا جائزہ لیا جائے۔ ایسی حکمت عملی اختیار کی جانی ضروری ہے جس میں جرائم پیشہ عناصر کیلئے اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہ رہے۔