سندھ میں بلدیاتی اصلاحات

November 28, 2021

کسی بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی کسوٹی اس کا صحتمند بلدیاتی نظام ہوا کرتا ہےتاہم قیام پاکستان کے 74برسوں میں سب سے زیادہ تجربات بلدیاتی اداروں پر ہی کئے گئے اس دوران یہ طویل دورانیے کے لئے معطل بھی رہے جبکہ بحالی کے زمانے میں سیاسی مداخلت نے انہیں کامیابی سے چلنے نہ دیا۔ تعمیر و ترقی کے فنڈ زیادہ تر غیر ذمہ دار افراد کے حوالے کر کے آنکھیں بند کر لینے کے یہ نتائج ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں شہروں اور دیہی سطح پر ہر طرف پینے کے صاف پانی، صحت و صفائی، گلیوں سڑکوں، سیوریج سے متعلق ترقیاتی کاموں، ڈسپنسری، سرکاری اسکولوں، کھیل کے میدانوں، مارکیٹوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ جہاں تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں یہ سہولیات گراس روٹ لیول تک بہم پہنچانے کی غرض سے نیا نظام متعارف کرایا ہے ۔ سندھ حکومت نے بھی صوبائی اسمبلی سے قانون میں ترامیم کا بل پاس کرالیا ہے جس کے تحت ٹائون نظام متعارف کرایا جائے گا ۔بلدیاتی اداروں کو حاصل اختیارات میں کمی کرکے بعض امور حکومت نے اپنے ذمے لے لئے ہیں۔ ضلع کونسلیں ختم کر کے ٹائون میونسپل کارپوریشنیں قائم کی جائیں گی اور فی میونسپل ٹائون آبادی ایک لاکھ 25ہزار تک ہوگی۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کی حدود میں کوئی دیہی علاقہ نہیں ہو گا۔ ٹائون میونسپل کونسل کے ارکان میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے کریں گے۔ بلدیاتی اداروں کی مدت چار سال ہو گی نیز پیدائش و اموات کی رجسٹریشن اور صحت کے پبلک و پرائمری شعبے اب بلدیاتی اداروں کے پاس نہیںرہیں گے۔حکومت سندھ کے یہ اقدامات بلدیاتی اداروں پر سے بوجھ ہلکا کرنے کو ظاہر کرتے ہیں جو اس کی صوابدید ہے تاہم عوام کے بہترین مفاد میںبنیادی تقاضا بہرحال نظام کا تسلسل کے ساتھ کامیابی سے جاری رہنا ہی ہے۔