نیشنل کمیونٹی پاور سپلائی پروگرام

November 30, 2021

(گزشتہ سے پیوستہ)

پاکستان آج عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کی جس دلدل میں پھنس کر بدترین مالی بحران کا شکار ہے، یہ شاخسانہ ہے ملک پر مسلط کرپٹ اور نااہل ترین حکومتی نظام کا، جس نے پاکستان جیسے شمسی توانائی سے بھی مالا مال ملک میں پہلے ہائیڈرو پاور (پانی سے تیار ہونے والی بجلی) کے موجود بیش بہا قدرتی ذرائع منگلا ڈیم سے شروع ہونیوالی پیش رفت کو تباہ کن سیاسی حربوں اور ڈراموں سے روک دیا۔ پھر جمہوری ادوار میں بھی اس قومی ضرورت پر مکالمے اور بحث کو بھی ’’حساس سیاسی موضوع‘‘ بنا دیا۔ گویا وسیع تر عوامی مفاد پر بات تک کرنا قومی یکجہتی کے لئے حساس معاملہ ہے جس کی اذیت ناک مثال کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو بڑی بےدردی سے دفن کرنا ہے۔ تلخ ترین حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں توانائی کے مختلف النوع آٹھ مختلف النوع ذرائع میں وافر اور آسان تر ایک بڑا ذریعہ شمسی توانائی جس کے آسان ترین حصول میں دوست ممالک سے سست رفتار ڈپلومیسی کی ضرورت ہے، نہ کڑی شرائط کے قرض کی بلکہ حکمرانوں میں اپنے قومی فرض کا حقیقی احساس ہو تو شمسی توانائی کا حصول آسان و تیز تر اور کسی عالمی ذریعہ استحصال سے قرض یا مکار ملک سے خودی و خود مختاری پر بٹہ لگانے والی ایڈ ویڈ کی ضرورت نہیں بلکہ ایک ہما گیر اور مطلوب مکمل سائنسی بنیاد پر پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ موجوہ صورت میں حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنے ہی مفاد کی اسیری فقط حکومت سنبھالنے اور اکھاڑنے کی کوششوں سے زیادہ کچھ نہیں کر پا رہیں۔ اس وقت مکمل نشاندہی کے ساتھ جو عوامی مسائل و ضروریات مکمل واضح ہیں، ان میں توانائی کا بحران، بجلی، پٹرول، مٹی کے تیل، گیس اور دیگر ایندھن کے بڑھتے نرخ کی شکل میں جبڑے کھولے عوام کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں، ہر چیز کی مہنگائی کے پیچھے توانائی کا یہ ہی بحران ہے۔ سب اشیائے خور و نوش کے چڑھتے نرخ اس سے جڑے ہیں۔ پاکستان میں آئی پی پیز (اینڈیپنڈنٹ پاور پروڈکشن) نے ہی وسیع تر اور بھاری بھر حکومتی کرپشن اور عوام کے استحصال مسلسل کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل کے پچیس تیس برسوں میں عوام اور ماحول دوست سستی بجلی اور آبپاشی کے بڑے قدرتی ذریعے نعمت خداوندی سے فائدہ اٹھانے کے پاکستان میں توانائی پیدا کرنے کے سب سے بڑے اور قابلِ عمل منصوبے کالاباغ ڈیم کو انتہائی منفی سیاسی مزاحمت سے دفن کیا گیا۔ آئی پی پیز کا سفید ہاتھی، اسی کا ثابت شدہ دور رس شاخسانہ ہے۔بلاشبہ عمران حکومت کے عوامی مفاد کے حکومتی اقدامات میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کے عشروں بعد ہائیڈل پاور (پانی سے تیار ہونے والی شفاف اور سستی ترین بجلی) کی طرف ملک کو دوبارہ لانا، قومی و ملکی استحکام کا سب سے قابلِ تحسین اقدام ہے لیکن یہ یقین بیش بہا تو ہے مگر دور رس نتائج کا حامل نہیں کیونکہ بجلی دیگر انواع کی توانائی کا بحران جبڑے کھولے گلی محلوں میں داخل ہو کر، مہنگائی کا سونامی لے آیا ہے۔ پھر بھی تبدیلی حکومت کو ملین ڈالر ٹپ ہے کہ وہ توانائی کے اس بحران پر قابو پانے کیلئے ملک کو ہی عطائے قدرت مال مفت و مسلسل، شمسی توانائی سے غریب اور سسکتی عوام کے مسلسل گرتی زندگی کو سنبھالنے اور آسان بنانے کیلئے بلاتاخیر اپنی مسلسل طنز و تنقید کا نشانہ بنی گورننس میں انقلابی تبدیلی لا کر شمسی توانائی کے کمیونٹی کی سطح کے سولر پاور سپلائی یونٹ کا ملک گیر نیٹ ورک تیار کرنے پر فوکس کر دے۔ جس کیلئے لازم ہے کہ فوری طو رپر پاکستان میں شمسی توانائی کے خصوصی حوالے ایک بڑی قومی یا انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد کریں جس میں شمسی توانائی کے مانے جانے ماہرین، خصوصاً بیرون ملک پاکستانیوں چین، برازیل، جرمنی اور دوسرے ملکوں سے مدعو کر کے ان سے جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ علمی و فنی مشاورت لے کر ہما گیر اور مکمل قابلِ عمل نیشنل الرجی پالیسی تیار کریں۔ اس کیلئے لازم ہے کہ منصوبے کو یقینی قابلِ عمل بنانے کے ساتھ ساتھ اسے محفوظ اور کرپشن فری اور ٹائم بائونڈ بنایا جائے۔

جیسے وزیراعظم نے فقط ذاتی دلچسپی سے ہی بھاشا ڈیم کے نیم جان منصوبے کو اپنی تمام تر مشکلات، گورننس کی محدود کیپسٹی اور مطلوب ٹیم نہ ہونے کے باوجود فوکس کر کے چینی تعاون سے عملاً شروع کر کے پائپ لائن میں ڈال دیا اور درمیانے اور چھوٹے درجے کے 9مزید ڈیمز کی تعمیر کا فقط افتتاح نہیں بلکہ عملی و حقیقی آغاز کر دیا ہے۔ اسی طرح وہ ناچیز کے مجوزہ ’’کمیونٹی پاور سپلائی پروگرام‘‘ پر متوجہ ہوں۔ یہاں کمیونٹی کا مطلب مخصوص محدود رہائشی علاقہ ہے۔ پہلے مرحلے کیلئے تجویز یہ ہے کہ وہ آئندہ تین ماہ میں جاری اقتدار کے بچے ایک سال میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں کم از کم 500کمیونٹی پاور سپلائی یونٹس قائم کرکے ایک کامیاب ماڈل ڈویلپ کر دیں، جس کی تقلید میں قومی پروگرام کے تحت اس کی تقلید سے ملک بھر میں پہلے گنجان غریب ترین بستیوں اور دیہات میں ایسے یونٹس نصب کئے جائیں۔ فنی تعلیم کا ایک ادارہ قائم ہو جس میں انفراسٹرکچر کی نگرانی اور تنصیب کرنے والی مطلوب افرادی قوت تیار ہو۔ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کمیونٹی کے رہائشی اور کمرشل یوزر کی شرکت پالیسی اور فیصلہ سازی میں نمائندگی کے حوالے سے شریک ہوں۔ اسی پارٹیسپٹری اپروچ پر پروجیکٹ SUSTAINABLE ہوگا۔ شاید اسکے لیے پرائیویٹ، پبلک پارٹنر شپ سرمایہ کاری کیلئے بہترین صورت بن سکے کہ حکومت تو کنگال ہے۔ نیشنل کمیونٹی پاورسپلائی پروگرام کے انفراسٹرکچر کی تمام مطلوب اشیا ملک میں ہی تیارکرنے کے صنعتی یونٹ لگانے کیلئے مقررہ مدت تک ٹیکس فری سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے۔ اگر شمسی توانائی جذب کرنیوالے سیلی کون ویفرز ملک میں نہیں بن سکتے تو چین سے انہیں سستے سے سستےداموں حاصل کیاجائے۔اگر ایک ڈیڑھ سال میں کمیونٹی کی سطح پر رہائشیوں کو ساتھ ملا کر ایسے 500سےایک ہزار تک یونٹس بھی ملک بھر کے شروں، قصبوں اور دیہات میں تیار کر دیے گئے اور ان کی روانی کو یقینی بنانے کا اہتمام کردیا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کامیابتجربے سے DIFFUSION OF INNOVATIONکا عمل تیز تر ہو کر آئندہ چند سالوں میں عوام الناس، اسمال برنس حتیٰ کہ صنعتوں کے لئے بھی عام ہو جائے اور ملک بڑے فیصد میں توانائی میں خود انحصار ہو جائے اور ہماری جان امپورٹ کے بھاری بھر کم بلز اور ظالم مالیاتی اداروں سے چھوٹ جائے۔