مہنگائی بڑھے گی!

December 01, 2021

فی الوقت حکومت کی توجہ زرعی پیداوار بڑھانے اور زرعی قرضوں کی فراہمی یقینی بنانے پر مرکوز ہے جس کا مقصد زرعی اجناس کی مہنگائی روکنا ہے۔ جو اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی روکنے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کھادکے موجودہ سٹاک اور قیمتوں کے حوالے سے بلائے گئے جائزہ اجلاس میں سختی سے ہدایت کی کہ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی جاری رکھی جائے۔ پچھلے ہفتے ذخیرہ اندوزی کے خلاف اقدامات کے بعد فی بوری کھادکی قیمت میں اوسطاً 4سو روپے کمی آئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عوام کی قوت خرید پر مسلسل دبائو کے تناظر میں تصویر کا یہ ایک روشن پہلو ہے جس کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ملکی معیشت بحال ہو رہی ہے لیکن وزارتِ خزانہ کی رپورٹ میں معاشی بہتر ی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کے مثبت نتائج کی توقعات کے ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا گیا کہ ادائیگیوں کے بحران اور عالمی مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ اقتصادی بحالی کے حوالے سے وزارت خزانہ نے دو اہم مسائل کی نشاندہی کی ہے جس کا پاکستان کی معیشت کو اس وقت سامنا ہے۔ ان میں سے ایک مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور دوسرا بیرونی ادائیگیوں کا دبائو ہے۔ زیادہ دبائو اشیا اور خدمات کی تجارت میں عدم توازن اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کی وجہ سے ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق نومبر میں مہنگائی کی شرح 9.5فیصد تک رہنے کی توقع ہے لیکن معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آئی ایم ایف کی جو شرائط مان کر قرضہ لیا گیا ہے ان کی وجہ سے مہنگائی دہرے ہندسے تک پہنچ سکتی ہے۔ انتظامی اور ریلیف اقدامات کے باوجود گذشتہ دو ماہ میںمہنگائی کو پَر لگ گئے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت پونے پانچ روپے بڑھائی جا رہی ہے جس کی وجہ گیس کی عالمی قیمتوں میں اضافہ بتایا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت حکومت کچھ عرصہ تک ہر ماہ پٹرولیم لیوی میں چار روپے فی لیٹراضافہ کرنے کی پابند ہے۔ اس عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کے جو ممکنہ اثرات برآمد ہو سکتے ہیں، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مطابق وہ قومی سلامتی، دفاعی صلاحیت اور حکومتی نظام کیلئے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ پاکستان اس ادارے اور اس کی وساطت سے بڑی مغربی عالمی طاقتوں کے دبائو میں آ جائے گا۔ حکومت بلاشبہ ان مسائل کو ختم کرنا چاہتی ہے اور رکاوٹوں کے باوجود اپنے اقدامات سے رواں مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ پر جو جی ڈی پی کے 4.7فیصد یعنی 13.8ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، بڑی حد تک قابو پا سکتی ہے۔ اس سے شرح مبادلہ کے دبائو کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی حکمت عملی کس حد تک موثر ہو سکتی ہے۔ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہیں۔ پھر حکومت کی معاشی ٹیم کے فکری اورعملی تضادات بھی لمحہ فکریہ ہیں ۔ ٹیکسیشن کا نیا نظام تاجروں کو مطمئن نہیں کر سکا۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کے نرخ قوت خرید کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں سردی کے موسم میں گیس کی نایابی اور بجلی کی گھنٹوں لوڈشیڈنگ سے عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ آٹا، چینی، سبزی، گوشت، دالیں اور ادویات ان کی رسائی سے باہر ہو رہی ہیں۔ تعلیم بھی مہنگی ہو چکی ہے۔ حکومتی شخصیات اس کا سبب پچھلی حکومتوں اور عالمی سطح پر آنے والی مہنگائی کو قرار دے رہے ہیں لیکن عام آدمی کا پیٹ ایسی دلیلوں سے نہیں بھرتا، ایسے حالات میں حکومت کو اپنے فیصلوں میں تدبر اور تفکر کو جگہ دینی چاہئے اور عوام کی مشکلات دور کرنے کیلئے مثبت اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھانے چاہئیں۔