روس، یوکرین کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی تیاری کررہا ہے؟

December 02, 2021

یوکرین کے صدر زیلنسیکی نے امریکہ یورپی یونین اور نیٹو کو مطلع کیا ہے کہ روس ان کی حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتا ہے جس کی اس نے پوری تیاری کرلی ہے۔ یوکرین کے خفیہ اداروں نے اطلاع دی ہے کہ کچھ کلپٹ یوکرین کے اندر ہیں جو روس کی مدد کر رہے ہیں۔ روسی فوجی بتدریج یوکرین کا گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ اس پر امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ امریکہ اس کا جواب دے گا اور یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوگا۔

ایک اطلاع کے مطابق روس کے دو بحری جنگی جہاز یوکرین کے ساحل کے قریب لنگر انداز ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں مشرقی یورپ کے خطے میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ یوکرین روس کے بعد سب سے بڑا ملک ہے اس کی سرحدیں روس کے علاوہ ہنگری، پولینڈ، بلغاریہ سے ملتی ہیں۔ یوکرین کا صدر مقام کیف ہے جو ملک صنعتی زرعی اور تجارتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔ یہ مختلف اعتبار سے بہت اہم ملک ہے اس کا رقبہ چھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے آبادی سوا چار کروڑ کے قریب ہے۔ باشندے محنتی جفاکش ،اپنی زبان اور ثقافت سے بہت محبت کرتے ہیں۔

یوکرین سوویت اشتراکی انقلاب کے بعد روس کے زیر اثر رہا مگر1990ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد پورے مشرقی یورپ میں ہلچل مچی رہی اور پیش تر ریاستیں روس سے الگ ہوگئیں۔ ایسے میں یوکرین بھی متاثر ہوا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یوکرین اور کریمیا الگ علاقے ہیں۔ 1774ء میں کریمیا کا روس سے الحاق ہوا تھا۔ 1954ء میں روس کے وزیراعظم خروشیف نے کریمیا کا یوکرین سے الحاق کردیا۔ لیکن جب سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تو یوکرین میں ریفرنڈم کرایا گیا کہ یوکرین روس کے ساتھ رہے گا یا الگ ہوگا۔

کیا امریکا دو طرفہ جنگ کا متحمل ہوسکتا ہے

اس ریفرنڈم میں 54فیصد عوام نے الگ رہنے کا فیصلہ صادر کیا۔ تب یوکرین الگ رہا اور کریمیا بھی اس کے ساتھ تھا مگر کریمیا میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے تو وہاں یہ بے چینی شروع ہوگئی کہ ہمیں روس کے ساتھ رہنا چاہئے۔ کریمیا میں بھی ریفرنڈم کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ تو یوکرین نے وہاں کے سیاسی رہنمائوں کو بڑی رقومات دیں۔ کریمیا کو بڑا بجٹ دیا کہ وہ علیحدہ نہ ہو۔ ریفرنڈم میں کریمیا کے عوام نے یوکرین کے حق میں فیصلہ دیا مگر شور ہوا کہ ریفرنڈم درست نہیں تھا۔

ایسے میں روس کی سپریم کونسل نے کریمیا کے ریفرنڈم کو بوگس قرار دے کر کریمیا پر قبضہ کرلی۔ کریمیا پر روس کی گرفت مضبوط ہوگئی۔ یوکرین کے شدید احتجاج کے جواز میں روس نے یوکرین کے تین بحری جہاز پکڑ لئے۔ اس واقعہ پر نیٹو ممالک کے سیکرٹری جنرل وکٹر نے روس کو خبردار کیا کہ اگر روس اپنی سرگرمیوں سے باز نہ آیا تو اس کی روس کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ روس کے صدر دلایمیر پیوٹن نے نیٹو کی دھمکی مسترد کردی۔ اس پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے نیٹو کے 18اراکین ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

درحقیقت تمام مسئلے کی جڑ پندرہ کلومیٹر طویل سمندیر پٹی ہے جو کیف سے گزر کر بحیرہ اسود میں جاتی ہے یہ اُس علاقے کی اہم گزرگاہ ہے۔ اس پر پہلے روس کا قبضہ تھا مگر یوکرین کے آزاد مملکت ہونے کے بعد زیادہ یوکرین پرتصرف ہے۔ روس کے لئے سمندری پٹی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس سمندری گزر گاہ کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں رکھنےکے لئے یوکرین پر قبضے پر غور کررہا ہے۔

چند روز قبل دو روسی بحری لڑاکا جہاز یوکرین کے قریب سمندر میں لنگرانداز تھے اب مزید ایک جہاز روس نے لاکر کھڑا کیا ہے، اس طرح تین بحری جنگی جہاز یوکرین کے اطراف کھڑے ہیں۔ روس اور یوکرین کی سرحد ملتی ہے۔ روس نے سرحد پر بھی 90ہزار سے زائد فوجی تعینات کر دیئے ہیں جو پوری طرح مسلح ہیں جبکہ یوکرین نے بائیس ہزار فوجی سرحد پر تعینات کئے ہیں۔

یوکرین کے موجودہ صدر زیلنسیکی صدر بننے سے قبل ٹی وی پروگرام کیا کرتے تھے اور ٹی وی کے مقبول کامیڈین تھے، مگر عام انتخابات میں یہ جیت گئے اور ملک کے صدر بن گئے۔ یہ مسئلہ بھی ہے کہ ملک کے سنجیدہ حلقے صدر کو غیر سیاسی شخصیت چاہتے ہیں، مگر یہ سچ ہےکہ زیلنسیکی عوام کے ووٹوں سے صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔

بیش تر سفارت کاروں اورمبصرین کی رائے میں روس کی نظریں یوکرین کے معدنی وسائل پر ہیں یوکرین میں لوہا، کوئلہ، کوبالٹ، تانبا، بکس لیٹ مزید معدنیات وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس حوالے سے یوکرین اپنے خطے کا سب سے زیادہ امیر ملک ہے۔ بجلی کے پلانٹس زیادہ ہیں ،بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے۔

سالانہ 50ارب ڈالر سے زائد کی ایکسپورٹ ہے۔ کیف میں جدید صنعتی کارخانوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ بیروزگاری کا اوسط سب سے کم ہے۔ بعض مبصرین کا یہ اندازہ ہے کہ روس کی نظریں یوکرین کے قدرتی وسائل پر شاید کسی حد تک درست ہیں، مگر اس حقیقت کو محلوظ رکھنا چاہئے کہ روس میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر دنیا میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ اس کی سرزمین کے سیکڑوں ایکڑ رقبوں سے کوئی قدرتی معدنیات نہیں نکالی گئیں۔ سرئبیریا کا لاکھوں مربع کلومیٹر کا علاقہ یونہی پڑاہے۔ اب جا کر گلوبل وارمنگ نے برف پگھلائی ہے تو امید ہو چلی ہے کہ سائبیریا میں بھی کھدائی شروع کی جائے گی۔

سوویت یونین کے دور میں یوکرین میں بعض اہم جوہری تنصیبات تھیں۔ جن میں چرنوبل کا جوہری بجلی گھر بہت بڑا تھا جس میں حادثہ ہوا تھا اور اس میں بے شمار انسانی جانیں ضائع ہوئی تھیں جن میں یوکرینین زیادہ تھے۔ یوکرین اس حوالے سے بھی خوش قسمت ملک ہے کہ باوجود برفباری کے یہاں اناج، سورج مکھی، مکئی دیگر سبزیاں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ سویابین کا تیل یوکرین کا اہم ایکسپورٹ ہے۔ یہ ملک مشرقی یورپی ممالک کو اناج، تیل، سبزیاں اور پھل ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اس طرح صنعتی ایکسپورٹ اور زرعی ایکسپورٹ دونوں شعبوں سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ یوکرین ہر لحاظ سے ایک مکمل ملک قوم اور علاقائی قوت ہے، خود کفیل ہے۔

ماضی قریب میں 1917ء کے کمیونسٹ انقلاب کے بعد ایک درجن سے زائد ریاست بزور قوت یا بذریعہ معاہدہ سوویت یونین میں شریک ہوئیں اس فیصلے سے یہ علیحدہ بحث ہے جبکہ خود سوویت یونین کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہاں فوج بڑی ہوگی۔ ہتھیاروں کے ڈھیر لگ گئے۔ سپر پاور کا تمغہ سینے پر سج گیا۔ مگر ملک سے روٹی آلو گوشت روٹھ گئے۔ حالانکہ انقلاب تو بھوک مٹانے آیا تھا۔ بھوکوں کے مٹنے کے لالے پڑ گئے۔

چونکہ روس علاقائی طور پر بہت بڑا ملک ہے۔ مگر برفباری کی وجہ سے کان کنی کے مسائل ہیں۔ یہ اور بات ہے مگر اصل مسئلہ جس نے سوویت یونین کو دنیا کی سپر پاور کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دیا وہ وجہ کرپشن، بدعنوانی، نااہلی، تجربہ کاری جدید جساسیات سے ناواقفیت، عوامی رائے کا فقدان، ایک ٹولے کی حکمرانی، انا پرستی، لیاقت سے زیادہ وفاداری، خوشامد آئین ریاست بن گئے تو پھر یہ سب کچھ تو ہونا تھا۔

ہاں یہ تسلیم کرسکتے ہیں کہ تعلیم مفت دی گئی۔ صحت عامہ کا شعبہ فعال اور کارآمد ثابت ہوا۔ مگر آزادی فکر، زبان بندی اور پرواز فکر گناہ ٹھہرے۔ گزشتہ دنوں روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے سائنس دانوں اور تیکنیکی ماہرین کو کہہ دیا ہے کہ آپ جدید سے جدید ہتھیار بنائیں۔ ظاہر ہے مسابقت اور تنوع پسندی کی اس دنیا میں روس اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ اب ہتھیاروں کی بنیاد پر معیشت کا دارومدار ہے۔ روس کو اپنے پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات بنانے کی ضرورت ہے۔

آج کی دنیا تنازعات، اناپرستی اور مصنوعی زور آوروں کی دنیا نہیں ہے۔ میل جول افہام و تفہیم تجارت، لین دین اور اعتدال پسندی کی دنیا ہے۔ سوویت یونین سمیت دیگر چھوٹی طاقتوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے 26ہزار جدید جوہری ہتھیار اس کی کوئی مدد نہ کرسکے۔ یوکرین پر ایک عرصے تک سوویت یونین کی گرفت رہی۔ 1990ء کے بعد اس نے آزادی اور سکھ کا سانس لیا ۔

ماضی بعید میں یوکرین پر بیرونی حملہ آوروں کے معرکوں نے زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اس کے علاوہ یورپی ریاستیں اپنی مذہبی لسانی معاشرتی اور مفادات کے زیر اثر ایک دوسرے سے دست و گریباں رہتے تھے۔

آج بھی کم و بیش ایسے ہی حالات ہیں اب معاشی مفادات کا مسئلہ سرفہرست آ گیا ہے۔ جیسے روس اچانک یوکرین کے خلاف ہوگیا اور بات جنگ و جدل تک آگئی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یوکرین کو چند برس قبل جب صدر وکٹر کی حکمرانی تھی، یورپی یونین نے یوکرین کو یورپی یونین میں شامل ہونے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ ایک بڑا معاشی پیکیج بھی آفر کر دیا۔ سابق صدر وکٹر بڑی حد تک روس کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے اس لئے انہوں نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ ایسے میں روس کی تشویش بجا تھی اس لئے کہ روس کے تیل کی بیش تر پائپ لائنز یوکرین سے گزرتی ہیں اگر یوکرین مغرب کا حلقہ بگوش ہو گیا تو روس کو خطرہ تھا۔

ایک پائپ لائنز اور دوسرے روس اور مغرب دونوں کی ایک سرحد۔ یہ دفاعی طور پر بھی روس کے لئے خطرہ تھا نیٹو یوکرین میں بہت بڑا فوجی اڈہ تعمیر کر سکتا تھا۔ ایسے میں یوکرین روس کے لئے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔ان حالات میں جبکہ یورپ یوکرین کو اپنے ساتھ ملانے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو دوسری طرف روس کے مفادات اور دفاعی معاملات کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

مزید یہ کہ یوکرین کے صدر زیلنسیکی نے امریکہ یورپ نیٹو سب کی گھنٹیاں بجا دیں کہ مجھے بچائو میرا تختہ الٹا جا رہا ہے۔ یوکرین کا روس گھیرائو کر رہا ہے۔ ایسے میں امریکی صدر جوبائیڈن نے بیان دیا کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ دوسری طرف نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بیان دیدیا کہ اگر روس نے یوکرین کے خلاف کوئی اقدام کیا تو روس کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

گویا روس کو امریکی صدر کی دھمکی بھی مل گئی اور دوسری طرف نیٹو نے بھی دھمکایا۔ مشرقی یورپی ریاستوں کے رہنما پریشان ہیں کہ اب روسی صدر پیوٹن کا ردعمل کیا ہوگا۔ اس کا جواب یہ سامنے آتا ہے کہ پیوٹن کی پہلی ملازمت کے بی جی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی تھی انہوں نے بارہ برس ملازمت کی پھر سوویت زوال کے بعد اس خفیہ ادارے کو چھوڑ کر سیاست میں آگئے۔ اس طرح امریکہ کے صدر بائیڈن ایک منجھے ہوئے پارلیمینٹرین سیاست داں ہیںتو پیوٹن ریاستی معاملات کی اونچ نیچ اور دائو پھیر کے پرانے سیاستدان ہیں اور شطرنج کے ماہر کھلاڑی مانے جاتے ہیں۔ اس طرح دونوں طرف دائو پیج آزمانے کی جنگ ہوگی۔ فی الفور توپ طیاروں کی باری نہیں آئے گی۔

روس نے اپنی تیل کی پائپ لائنیں مختلف مشرقی یورپی ریاستوں سے گزاری ہیں اور یورپ کے بیش تر ممالک روسی تیل کا انحصار کرتے ہیں۔ اس لئے روس کی تیل فراہمی جاری رہے گی البتہ یوکرین میں جو لائنیں ہیں وہ کچھ زیادہ ہیں جو روس کے لئے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اب یہی بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے۔ روسی تیل کی پائپ لائنیں روس کے لئے تو بہت اہم ہیں مگر ہالینڈ، بلجیم، اٹلی جرمنی کے لئے بھی بہت زیادہ اہم ہیں۔ اگر یہاں کوئی بڑی گڑبڑ ہوئی تو کون کون پریشان ہو گا، اس کا پھر ردعمل کیا ہو گا؟

یہ زیادہ اہم سوال ہیں۔ روسی صدر پیوٹن کو زیادہ پریشانی نہیں ہے۔ مگر وہ ضرور چاہتے ہیں کہ آئندہ ایسی کوئی کشیدگی نہ ہو ۔اس کے لئے وہ بہت کچھ سوچ رہے ہوںگے۔ مشرقی یورپ کے چند مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرین بہت بڑا ملک ہے اس کی جنوبی سرحدیں روس سے ملتی ہیں اس لئے یوکرین کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر کے دو ملک بنا دیئے جائیں اس طرح ممکن ہے کہ آئندہ کے ممکنہ خطرات اور خدشات سے چھٹکارہ حاصل ہو سکے،مگر اس تجویز کی مغرب کی طرف سے سخت مخالفت کی جا سکتی ہے۔ 1991میں روس سے الگ ہونے کے بعد یوکرین اور کریمیا کے مابین پھر سیاسی کشیدگی پیدا ہونے لگی۔

کریمیا میں ستر فیصد سے زائد روسی آباد ہیں اس وجہ سے کریمیا اور یوکرین کے مابین کشیدگی چلتی رہتی ہے۔ 2014میں جنوب مشرق میں روس کے حامی باشندوں نے یوکرین کے فوجیوں پر حملے کیے کیونکہ مشرقی حصے کے رضا کاروں کو روس کی حمایت حاصل تھی اور مدد بھی ملتی تھی۔ سوال یہ بھی اٹھایا گیا کہ آیا جزیرہ نما کریمیا روس کا حصہ ہے یا یوکرین کاحصہ ہے۔ اس سوال کا جواب خاصا مشکل ہے کہ اگر تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالیں تو جزیرہ نما کریمیا روس کا حصہ ہے۔ اس کی اہمیت سترہ کلومیٹر طویل سمندری پٹی کی وجہ سے جو اہم آبی گزر گاہ ہے اور اس سمندری علاقے کو بحیرہ اسودسے ملاتی ہے۔

عالمی میڈیا خاص کر امریکی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا امریکہ چین اور روس سے ہر دوجانب مقابلہ کرے گا۔ سیاسی، دفاعی ،منطقی طور پر اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے تو جواب زوردارنہیں میں آئے گا۔ ایک طرف چین بڑی طاقت دوسری طرف روس بڑی طاقت اگر دونوں میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں اور امریکہ بھی سامنے ڈٹ جاتا ہے تو ایسے میں امریکی فوج دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گی وہ دودو محاذوں پر بھی لڑتی رہی ہیں مگر یہاں معاملہ دوسرا ہے۔

دو محاذ نہیں بلکہ دوبڑی طاقتوں کا ہے۔ کوئی ذی ہوش فرد بھی اس نوعیت کی جنگ کا تصور نہیں کرسکتا۔ ایک طرح سے تینوں طاقتوں کی جنگ سے دنیا دھواں دھواںہو جائے گی۔ یہ صدر بائیڈن، صدر شی جن اور تمام جانتے ہیں۔ اب دنیا کسی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم پہلے ہی اس زمین اور فطرت کے خلاف جنگ چھیڑ چکے ہیں۔