ابھی تھوڑی سی جگہ خالی ہے

December 02, 2021

ہوا چلے نہ چلے، بادباں کھلیں نہ کھلیں

سفر نصیب! سہارے بدل نہیں سکتے

یہ شعر امجد اسلام امجد کی کلیات ’’ہم اُس کے ہیں‘‘ سے لیا گیا ہے،معاملہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی ابھی تک ’’ہم اُس کے ہیں‘‘کے اصول پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارے سدا بہار دوست اور مہربان امریکہ نے پاکستان کو مدعو کیا ہے، اس خبر کی تصدیق ہونا باقی ہے ۔امریکہ بہادر کو دنیا بھر میں جمہوریت کی بہت فکر رہتی ہے، پاکستان کی نوکر شاہی اور عسکری انتظامیہ فی الحال امریکہ سے بہت متاثر نظر آ رہی ہے، امریکہ کو پاکستان کی جمہوریت کی بہت ہی فکر ہے۔اس وقت پاکستان کی اپوزیشن کا پاکستان کی جمہوری حکومت پر الزام ہے کہ اس کو عسکری انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔دوسری طرفموجودہ حکومت مالی معاملات کے باب میں شدید بحران سے دوچار ہے ۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دونوں پاکستان کو چین کے اثر سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ہم پاکستانی اس وقت شدید سیاسی خلفشار کا شکار ہیں۔

پاکستان میں جمہوریت کا کردار بہت ہی مشکوک نظر آ رہا ہے، اک زمانے میں جمہوریت جب ایک نظریہ تھی تو دنیا کے امیر ممالک اس نظریہ کو حقوق اور امن کے تناظر میں فروخت کرتے تھے۔ پھر دنیا کے طاقتور ملکوں نے ایک ایسا کلب بنایا جو باہمی جھگڑوں میں مثبت کردار ادا کر سکے یہ بات پہلی جنگ عظیم کے بعد کی ہے، اس وقت یورپ میں تقسیم واضح تھی اور گورے ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھے۔ کچھ بدمعاش سفید فام امریکہ میں مقامی لوگوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔امریکہ کے سفید فاموںمیں یورپ میں سے اسپین اور ایریش بہت ہی نمایاں تھے امریکہ میں سفید فام اکثریت نے امریکہ کو فتح کر ہی لیا اور ان کی جنگ کینیڈا میں برطانوی سفید فام لوگوں کے ساتھ بھی رہی اور کینیڈا ایک الگ ملک کے طور پر اُبھرا، پہلی جنگ عظیم کے بعد امیر ملکوں کا کلب بنا مگر یورپ میں جمہوریت مقبول نہ ہو سکی صرف برطانیہ میں کچھ پیشرفت ہوئی ۔قبضہ مگربادشاہت کا ہی تھا اور اس صورتحال میں عدم برداشت کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔

کیوں بدگماں ہے خلق خدا تیری ذات سے

لوگوں میں بیٹھ اور ذرا بات کرکے دیکھ

پھر یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور یورپ کی اس جنگ میں ہندوستان کے لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ ہندوستان کے آزاد خیال لوگ جرمنی اور اٹلی کے طرف دار تھے، مہاراجے اور رعایا برطانیہ کی ہم نوا تھی ۔ہندوستان پر برطانیہ کا قبضہ تھا، اس پرآشوب دور میں سرسید نے تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کو اپنی حیثیت منوانے کا درس دیا اور عملی طور پر تعلیم کو فروغ دیا اور مسلمان توجہ کے ساتھ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایسے میں برطانیہ نے ہندوستان سے کوچ کا فیصلہ کر لیا۔قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کی آزادی کے طرف دار تھے، ہندو اکثریت مسلمانوںسے پرانے بدلے لینے کے لئے فرنگی کےساتھ سازش میں شریک عمل تھی۔ محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی فکر نے مسلمانوں کو یکجا کیا اور پاکستان اس خطہ میں ایک مسلمان ریاست کی حیثیت میں نمایا ں ہوا۔پاکستان اور بھارت اس خطہ میں دو آزاد ملک دنیا کے نقشے پر نمایاں ہوئے ۔بھارت میں برطانیہ نے جمہوریت کا پرچار جاری رکھا اور پاکستان بھی متاثر ہوا۔ بھارت میں کانگریس جمہوریت سے متاثر تھی مگر روس سے قریب تھی اور امریکہ بھی بھارت پر مہربان نہ تھا، پاکستان پر امریکہ کی نظر کرم تھی ۔امریکی سیاست دان اور اعلیٰ فوجی حلقے پاکستان کو اپنا حلیف بنا چکے تھے ۔کوریا کے ساتھ جنگ میں پاکستان پالیسی کے حوالےسے امریکہ کا اتحادی بنا۔

اتنا عرصہ گزرنے کے بعد امریکہ آج پھرپاکستان پر توجہ دے رہا ہے۔مگر اب اس کا حلیف بھارت ہے جس کے حوالے سے امریکہ پاکستان کی پالیسی بدلنا چاہتا ہے پھر چین نے امریکہ کی افواج اور سیاست دانوں کو پریشان کر رکھاہے۔پاکستان چین کے ساتھ نظرآ رہا ہے اگرچہ چین کو کچھ معاملات پر تشویش بھی ہے مگر پاکستان کی حیثیت خطے میں اہم ہے اور چین افغانستان اور بھارت کےساتھ معاملات طے کرنے میں پاکستان کی حیثیت کو اہم خیال کرتا ہے ۔ اس کو پاکستان کی جمہوریت پسند نہیں مگر وہ دخل اندازی بھی نہیں کرتا، اس کی ترقی سے انکار ممکن نہیں مگر اندرون ملک کچھ خرابیاں بھی نظر آ رہی ہیں اور ان کی وجہ سے امریکہ بھارت کو اہمیت دے رہا ہے، پاکستان کی معیشت اور سیاست میں بڑی خرابیاں ہیں جو ملکی ترقی اور آزادی کو مشکوک بنا رہی ہیں ہمارے سابقہ حکمرانوں کو امریکہ اور برطانیہ کی اشیرباد حاصل رہی ہے اور آج بھی ان ملکوں کی مداخلت کی وجہ سے ہمارے سیاست دان محفوظ اور خود سر نظر آ رہے ہیں اور ریاست ان کے سامنے بے بس ہے،حقیقت یہ ہے کہ عوام کی مایوسی ریاست کے لئے خطرہ ہے۔

اس وقت بھی عالمی ادارے جو بظاہر اقوام متحدہ کے زیر اثر ہیں مگر امریکی پالیسی کے مطابق کام کرتے ہیں،ان کی مداخلت پاکستان میں بہت زیادہ ہے۔پاکستان کی معیشت کو وہ کنٹرول کر رہے ہیں اور پاکستان کی سیاست میں حصہ دار بن چکے ہیں اور جمہوریت کے نام پر سیاست کو بے توقیر کر رہے ہیں۔ان کی مداخلت سیاست میں، ریاست میں، نوکر شاہی میں اور دیگر اداروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں جمہوری حکومت ہے مگر قابلِ اعتبار نہیں، ہمارے دوست اور حلیف اس جمہوری سرکار کی بجائے عسکری انتظامیہ پر زیادہ توجہ دیتے نظر آ رہے ہیں اور عسکری انتظامیہ ہمارے دوستوں اور حلیفوں کے لئے اس جمہوری حکومت کے زیر سایہ اپنی حیثیت منوا رہی ہے۔مشکلات کا سلسلہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔سیاست دان عسکری انتظامیہ سے رابطہ رکھتے ہیں۔مگر عوام کےسامنے اس عسکری انتظامیہ پر تنقید کرکے اپنے آپ کو جمہوریت پسند ثابت کرتے ہیں ترقی اور تبدیلی کے لئے انتخابات کا حل سوچتے ہیں،انتخابات آج پھرملک کو آزادی سے دور کر سکتے ہیں، اس کے لئے کسی نئے نظریہ کی ضرورت ہے جو پاکستان کو بچا سکے اور چلا بھی سکے۔