وزیراعظم کا کرچی کرچی ہوتا خواب

December 04, 2021

وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ایجوکیشن کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب نئی نسل تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ طبقاتی نظامِ تعلیم نے معاشرے کو تقسیم کردیاہے، یکساں نصابِ تعلیم مستقبل میں ملک کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ ہمیں آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے بارے سوچنا ہے جبکہ بچوں کونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے بارے میں پڑھانا چاہئے۔ ان کی صائب رائے میں ہماری تنزلی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام ہے۔ان کے بقول انگلش میڈیم سسٹم ذہنی غلامی لایا اور اس سسٹم نے ہمیں مغربی کلچر کا غلام بنا دیا۔ یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ تحریک انصاف کے منشور اور ایجنڈے کا حصہ ہے۔ جہلم میں القادر یونیورسٹی کے اکیڈمک بلاکس کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اپنی آئندہ نسلوں کو سیرت النبیؐ اور اولیاکرام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور کردار سازی کیلئے القادر یونیورسٹی اور رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی تحقیق کے اہم مراکز ہوں گے، القادر یونیورسٹی مسلم امہ کو درپیش فکری مسائل کو سلجھانے کے حوالے سے عالمی اسکالرز کے تعاون سے تحقیق و مباحثہ کا محور بنے گی۔

وزیر اعظم پاکستان کا یہ کہنا درست ہے کہ قرآنی احکامات کے باوجود معاشرے میں اجتہاد سے دوری بدقسمتی ہے۔ ان کی یہ بات بھی بجا ہے کہ پاکستان میں، موبائل فون انقلاب ضرور لایا مگر اخلاقی طور پر نوجوانواں کو کمزور کرنے میں بنیادی کردار بھی موبائل فون کا ہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جب ہم سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پراس کی روح کے مطابق عمل کریں گے توہی قائد اعظم ؒ اورعلامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر پاسکیں گے۔ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بلاشبہ قومی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ایک طرف انگریزی نصاب تعلیم، دوسری طرف اردو اور تیسری طرف دینی مدارس، ان تینوں متوازی نظام ہائے تعلیم سے تین مختلف طبقات جنم لیتے ہیں، تین متضاد سوچیں ابھرتی ہیں جو معاشرے کا بیڑہ غرق کردیتی ہیں ان کا ایک دوسرے سےکوئی واسطہ نہیں اور یہ تین مختلف انتہائیں ہیں۔ اس لئے ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کا فیصلہ ایک احسن فیصلہ ہے لیکن کیا کیجئے کہ بغیر تیاری کے سب کچھ کیا جارہا ہے۔ وزیر اعظم کے خوابوں کو عملی تعبیر دینے کی راہ میں ہمارے سابق حکمران، بیوروکریٹس اور سیاستدان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو نہیں چاہتے کہ یکساں نظام تعلیم رائج ہو۔ دیکھا جائے تو سپریم کورٹ تو پہلےہی اردو کو قومی زبان قرار دے کر اس کے تمام سرکاری شعبوں میں عملی نفاذ کا حکم صادر کرچکی ہے۔ مجال ہے کہ کسی بھی سرکاری ادارے میں ایک بھی لفظ اردو میں لکھا جاتا ہو، اجلاسوں کی کارروائی تک انگریزی زبان میں ہوتی ہے حتی کہ تمام سرکاری تقریبات کی کارروائی انگریزی زبان میں قلمبند کی جاتی ہے پھر اسے اردو زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلے تک انگریزی زبان میں لکھے جاتے ہیں اور جس کے حق یا خلاف فیصلہ آتا ہے وہ وکلا سے اسے پڑھوا کر سمجھتا ہے کہ فیصلے میں کیالکھا ہے۔نجی شعبے میں ہزاروں تعلیمی ادارے ہیں لیکن ان میں غالب اکثریت ایسے اداروں کی ہے جہاں اردو کے ٹیچر کی تنخواہ سب سے کم مقرر کی جاتی ہے۔ رواں سال تو ملک بھر میں ہونے والے امتحانات میں حد ہوگئی، ساراسال اردوپڑھنے والے بچوں سے ارد و کا پیپر تک نہیں لیا گیا صرف چار مضامین کا امتحان ہوا تھا اسی پر طالب علموں کو پاس یا فیل کردیا گیا۔ معلم کے بارے میں قرآن کی آیات اور احادیث میں بہت کچھ آتا ہے۔حدیث کے مطابق خاتم النبیین ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس کا پہلا جملہ یہی تھا کہ ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے‘‘۔اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پہلی وحی میں ہی علم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔قرآن کی ایک آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ’’اللّٰہ نے انسان کو وہ کچھ سکھایا، جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے قدرتی چیزوں کے بارے میں علم عطا کیا اور پھر اس کی تفصیلات اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ترسیل فرمائی۔ اس میں کوئی شک نہیں خود رسول اللّٰہ ﷺ ایک معلم تھے۔ انھوں نے انسانوں کو اخلاقیات، تقویٰ اور درست طرز عمل کے بارے میں تعلیم دی۔رسول اللّٰہﷺ نے نہ صرف زبانی علم سکھایا بلکہ ان تمام باتوں کو اپنی زندگی میں عملی طور پر کرکے بھی دکھا دیا۔

ایسی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ یکساں نصابِ تعلیم کو سندھ کی حکومت نے مسترد کردیا ہے اوردوسری طرف فائیو اسٹار ہوٹلز جیسی سہولیات کے حامل غیر ملکی انگلش میڈیم ا سکولز نے یہ سب کچھ ایک طر ف رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ آکسفورڈ کی تمام کتابیں حسبِ سابق پڑھائی جائیں گی اور بدیسی نظامِ تعلیم کے حامل ادارے یکساں نظام تعلیم کو کسی صورت نہیں اپنائیں گے۔ انہوں نے لاکھوں پاؤنڈز اور ڈالرز کی جو کتابیں پاکستان میں اپنے ایجوکیشن سسٹم کیلئے تیار کروارکھی ہیں انہیں ہر صورت پڑھایاجائے گا۔ پاکستان میں جو ادارے ’اے‘ اور ’او‘ لیول کی کتابیں چھاپتے اور فراہم کرتے ہیں وہ کسی صورت بھی سرکاری نصاب جوکہ یکساں نصاب و نظا م تعلیم پر مشتمل ہے، کو نہیں پنپنے دیں گے، یہ ادارے اربوں روپے کا منافع سالانہ فیسوں کی شکل میں پاکستان سے اپنے ممالک کو منتقل کرتے ہیں۔ اس لئے بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ یکساں نصاب و نظامِ تعلیم کا وزیر اعظم کا خواب ان کی آنکھوں کے سا منے وفاقی وزیر تعلیم،بیوروکریسی اور انگلش میڈیم بزنس مافیاز چکنا چور کررہے ہیں۔کوئی تو کہے کہ جس نے لاکھوں روپے ماہانہ دے کر اپنے بچوں کو آکسفورڈ اور امریکن لیول کی جدید تعلیم دلوانی ہے وہ اپنے بچوں کو لندن یا نیویارک بھجوادے، پاکستان میں عام پاکستانی بچوں کو یکساں نصاب و نظام تعلیم کے تحت ہی پڑھنے دیں۔