پیپلز پارٹی کے 54 سال

December 05, 2021

54 سال قبل کی بات ہے 29نومبر1967ء کو گلبرگ لاہور میں ’’بابائے سوشلزم‘‘ ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ پر ملک بھر سے اڑھائی تین سو چیدہ چیدہ سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اکھٹے ہوئے جس میں پیپلز پارٹی قائم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا جب کہ 30نومبر1967ء کو باضابطہ طور پر پیپلز پارٹی قائم کرنے کا اعلامیہ جار ی کیا گیا اسی دن کی مناسبت سے ہر سال پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس منایا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے ناراض ہو کر کر اپنی الگ جماعت قائم کر کے ملکی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھنے والوں میں شیخ محمد رشید،مصطفیٰ کھر، عبد الحفیظ پیرزادہ ، حنیف رامے ، ممتاز بھٹو، معراج محمد خان ، خورشید حسن میر، جے اے رحیم، محمد خان شیرپاؤ، ملک معراج خالد ، حیات خان شیرپائو ، سردار حق نواز گنڈاپور، سردار سلیم ، احمد رضا قصوری اور مختار رانا کے نام قابل ذکر ہیں۔ 54سال گزرنے کے بعد آج پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں میں قائم علی شاہ، سردار سلیم اور تاج محمد کے سوا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا بیشتر رہنما اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں یا دوسری جماعتوں میں چلے گئے، آج کی پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے دور میں شامل ہونے والے رہنمائوں پر مشتمل ہے ذوالفقار علی بھٹو نے پنجاب کے دل لاہور کو نئی جماعت بنانے کے لئے منتخب کیا تھا یہی صوبہ طویل عرصہ تک پیپلز پارٹی کی قوت کا مرکز بنا رہا اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم میں شامل ہونے والے بیشتر ارکان سیاسی لحاظ سے بڑے قد کاٹھ کے مالک نہیں تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اس ٹیم کو سیاسی پہچان دی اگرچہ اس وقت ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں ایوب خان کے خلاف سرگرم عمل تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو تنہا ان تمام سیاسی جماعتوں پر بھاری تھے جب کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن ’’بے تاج‘‘ بادشاہ تھے اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر ایوب خان کو گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار شیخ مجیب الرحمٰن کو رہا کرنا پڑا رہائی کے بعد ان کو راولپنڈی میں مشرقی پاکستان ہائوس میںٹھہرایا گیا بعد ازاں یہ عمارت سپریم کورٹ کے حوالے کرکے مشرقی پاکستان ہائوس ختم کر دیا گیا مجھے مشرقی پاکستان ہائوس میں ہی شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کا موقع ملا تھا ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی بلائی گئی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کر کے ایوب خان سے مذاکرات کرنے والے سیاست دانوں کو بے توقیر کردیا تھا ،1970میں’’ون مین ون ووٹ ‘‘کی بنیاد پر ہونے والے انتخابات میں جہاں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے سویپ کیا وہاں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت بن کر ابھری، ملک کے دو حصوں میں دو الگ الگ پارٹیوں کی کامیابی نے پاکستان کو دولخت کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا وہاں شیخ مجیب الرحمٰن 6نکات سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’ادھر ہم ادھر تم ‘‘ کا جو نعرہ لگایا تھا وہ علیحدگی نہیں ’’ اشتراکِ اقتدار ‘‘کا نعرہ تھا دو بڑی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے غیر لچک دار رویے نے ملکی سیاست میں ایسا ڈیڈ لاک پیدا کیا جوبالآخر ملک کے دوٹکڑے ہونے کا باعث بنا۔ سیاست دان اگر ملک کو دولخت ہونے سے بچانے میں مخلص ہوتے تو آرمی ایکشن کی نوبت ہی نہ آتی مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہئے کہ کوئی شخص ان کے خلاف کھلے عام بات نہیں کر سکتاتھا پیپلزپارٹی کے کارکن ذوالفقارعلی بھٹو کے لئے جان بھی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان اور عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو نے ’’کھمبے‘‘ کو بھی ٹکٹ دیا تو وہ کامیاب ہو گیا، مشرقی پاکستان سے صرف نور الامین اور راجہ تری دیو رائے ہی جیت سکے باقی تمام نشستیں عوامی لیگ جیت گئی پیپلز پارٹی میں شروع دن سے دائیں اور بائیں بازو کی کشمکش کا شکار رہی ہے پیپلز پارٹی نے پاکستان کے محکوم ، غریب اور مزدور لوگوں کے لئے جس انقلابی منشور کا اعلان کیا اس کے لئے 4اصول وضع کئے(1)اسلام ہمارا دین (2)جمہوریت ہماری سیاست (3 )مساوات ہماری معیشت(4) طاقت کا سرچشمہ عوام۔ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو عوام میں غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی جب دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے سوشلزم کے نعرے پر تنقید کی جانے لگی تو ذوالفقار علی بھٹو نےاسے اسلامی سوشلزم کا نام دے دیا جسے مساوات محمدیؐ بھی کہا جانے لگا ذوالفقار علی بھٹو جاگیر دارانہ پس منظر رکھنے والے ترقی پسند لیڈر تھے وہ پیپلز پارٹی میں ’’مارکسی‘‘ سوچ رکھنے والے انقلابیوں میںگھرے ہوئے تھے لیکن وہ پارٹی میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ لیاقت باغ کے جلسہ میں ’’ بنگلہ دیش نامنظور ‘‘ کا نعرہ بھی عبد الحفیظ پیر زادہ اور مولانا کوثر نیازی کی خورشید حسن میر سے مخالفت کی وجہ سے لگایا گیا اس کا مقصد خورشید حسن میر کو ذوالفقار علی بھٹو کی نظروں میں بے توقیر کرنا تھا زمانہ طالبعلمی میں ایوب خان کے خلاف تحریک کے آغاز میں فلیش مین ہوٹل راولپنڈی میں میری ذوالفقارعلی بھٹو سے ملاقات ہو ئی ۔ذوالفقار علی بھٹو سے میرا تعارف امان اللہ خان نے کرایا اس وقت نوجوانوں کی بڑی اکثریت اسی طرح بھٹو کی شیدائی تھی جس طرح آج نوجوان عمران خان کے سحر میں مبتلا ہیں، میں اس وقت گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اصغر مال اسٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکرٹری جبکہ عبد الرشید شیخ جو کہ اس وقت وکالت کر رہے ہیں ( شیخ رشید احمد وفاقی وزیر نہیں) اسٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے، عبدالرشید شیخ نے ذوالفقار علی بھٹو سے پشاور میں ملاقات کی اور قائد اعظم یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر کنیز یوسف کا سفارشی خط لے کر 8نومبر1968ء کو اسٹوڈنٹس یونین کی تقریبِ حلف برداری کے لئے وقت حاصل کر لیا جسے طے شدہ حکمت عملی کے تحت خفیہ رکھا گیا۔(جاری ہے)