انسان ستر سال گناہ کرتا رہے، ایک آنسو انہیں مٹا دیتا ہے ۔دوسری طرف آپ دیکھیں کہ شیطان کے لیے ہرگز کوئی معافی نہیں ۔ جبرئیل کی زبان سے اقبالؔ نے کہا تھا :
ہر گھڑی افلاک پہ رہتی ہے تیری گفتگو
کیا یہ ممکن نہیں کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو
کیا آپ جانتے ہیں کہ جو لوگ کنجوس ہوتے ہیں ، ان کے نزدیک سخاوت کا مظاہرہ کرنے والے اوّل درجے کے الّو ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دوسروں کو اس سے روکتے ہیں کہ بلاوجہ کسی کو صدقہ دیا جائے۔کبھی کبھی آدمی سوچتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہ توبہ نازل ہوئی۔ شیطان پہ کیوں نہ ہوئی ؟
شیطان کم علم نہیں تھا۔ اپنی آنکھوں سے سیارہ ء ارض پہ مخلوقات کو اس نے پیدا ہوتے اور پھلتے پھولتے دیکھا تھا۔ اسے اچھی طرح سے علم تھا کہ کرّ ہ ء ارض کی مخلوقات کس طرح سے اپنی جبلتوں کی غلام ہوتی ہیں ۔ اس نے سمندری زندگی، ریپٹائلز، میملز ، پرائمیٹس ، گریٹ ایپس اور گریٹ ایپس میں سے انسان کو پیدا ہوتے دیکھا تھا۔ اس کے پاس اربوں سال کا مشاہدہ تھا ۔ زمین کی مخلوقات ایک دوسرے کا لہو بہاتی ہیں ۔ یاد رکھیے کہ انسان کا دل‘ گردے‘ جگر‘ پھیپھڑے‘ خون‘ شریانیں‘ nervesاور جلد سب کچھ اسی طرح ہی ہے‘ جیسا کہ بھینس یا بکرے میں۔انسان اسی کرّہ ء ارض سے لیے گئے مٹیریل یعنی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ سورۃ دہر کی پہلی آیت میں خدا یہ فرماتا ہے کہ انسان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ انسان کو غصہ بھی اسی طرح سے آتا ہے‘ جیسے دوسرے جانوروں کو آتا ہے ۔ ساری جبلتیں جو جانوروں میں ہیں‘ وہی انسانوں میں منتقل ہوئیں۔شیطان چونکہ زمین پر رہنے والے جانداروں میں ان جبلتوں کو اپنی آنکھوں سے پھلتے پھولتے دیکھ چکا تھا‘ اس لیے اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ خدا کے سامنے یہ دعویٰ کیا کہ میں جیسے چاہوں گا‘ آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا ہر چیز کا علم رکھتاہے‘ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ شیطان آدم علیہ السلام کو کیسے ورغلا ئے گا۔ اللہ کو یہ بات معلوم تھی‘ لیکن اس نے پہلی دفعہ ایسی مخلوق پیدا کی تھی‘ جسے ہدایت اور گناہ میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ انسان میں یہ منفردخاصیت تھی کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ علم بھی اللہ نے دیا۔ توبہ بھی اللہ نے نازل کی تو آدمؑ نے خود کیا کیا؟ جواب‘ آدم علیہ السلام اپنی غلطی پر شرمندہ‘بلکہ از حد غم زدہ ہوئے۔انہوں نے اپنی غلطی پر اصرار نہیں کیا۔ دوسری طرف شیطان جو کہ دنیا وی طور پر ساری عقل رکھتا تھا، اس نے خالق کو چیلنج دیا ۔ چیلنج بھی مختصر نہیں بلکہ ہزاروں سال کا۔ توبہ کا دروازہ اس کے لیے بھی چوپٹ کھلا ہوتا ، اگر وہ باقی رہنے والا یہ چیلنج نہ دیتا۔ دوسری طرف آدمؑ کا حال یہ تھا کہ غلطی ہوئی او ر دربار سے نکالے گئے تو ندامت کے مارے آنسو بہاتے رہے ؛حتیٰ کہ معاف کر دیے گئے ۔
قرآن کہتاہے کہ شیطان نے انکار تو کیا ہی، اس نے اصرار بھی کیا۔شیطان کا پاگل پن دیکھیے کہ وہ علم‘طاقت اور خواہش کے ذریعے آدم ؑ کا مقابلہ کر رہا تھا؛حالانکہ اگر اس نے مقابلہ کر نا ہی تھا تو وہ توبہ کے میدان میں کرتا۔آدمؑ کی اصل خاصیت تو ندامت اور توبہ تھی ۔ یہاں یہ بات اپنے ذہنوں میں اچھی طرح بٹھا لیں کہ غصے سمیت ساری جبلتیں وہی ہیں‘ آبی جانوروں اور رینگنے والے کیڑوں سے لے کر گریٹ ایپس تک آئی ہیں ۔ اللہ نے اس زمین پر زندگی ایک بہت طویل عرصے میں بتدریج تخلیق کی ہے۔ یہ سب جبلتیں اور خواہشات کروڑوں برسوں میں ہم تک پہنچی ہیں۔ یہ اس قدر طاقتور ہو چکیں کہ ان سے انسان کبھی نہیں لڑ سکتا‘ جب تک کہ اسے اللہ کی طرف سے مدد حاصل نہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ ایک شخص جو طبعاً نیک بھی ہو‘ وہ بھی غصے میں ایسے ایسے کام کرجاتاہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ انسان کو زمین پر اتارنے کا فیصلہ یقیناًپہلے سے ہی ہو چکا تھا۔خدا نے خود کو حجاب میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ زمین پر انسان کی آزمائش بہت پیچیدہ کر دی گئی۔ اس میں عورت سے لے کراولاد اور زمینی وسائل پر قبضے کی خواہشات شامل ہیں۔
وقت گزرتا گیا۔ آخری پیغمبرؐ کو پردہ فرمائے چودہ صدیاں ہو چکیں۔ معاملات اس طرف جا رہے ہیں‘ جہاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس انسان دوسرے سیاروں پہ آبادیاں بسانے کی خواہش کر رہا ہے۔ اپنے ضائع ہوجانے والے اعضا کو لیبارٹری میں پھر سے اگانے کی تیاری ہے۔ انسان بارشیں برسانے لگا ہے ۔ جینز میں مداخلت سمیت انسان اس طرف بڑھ رہا ہے‘ جہاں ایک دن شاید وہ مردہ کو زندہ کرے گا اور پھر خدائی کا دعویٰ کر ڈالے گا۔ انسان خدائی کا دعویٰ کرنے کی طرف جا تو رہا ہے لیکن ایک خوفناک حادثہ اس کے انتظار میں ہے ۔یہ اس کی بھول ہے کہ کسی دوسرے سیارے پر مستقل آبادی وہ قائم کر سکے گا۔ ایک حادثہ ہونا ہے‘ جسے قرآن ’’القارعہ‘‘کہتاہے۔ ایک بہت خوفناک دھماکہ‘ جس کے جھٹکے سے کرّہ ء ارض کے اوپر رکھے ہوئے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑ جائیں گے۔انسان کو اس زمین پر آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اسی زمین میں یہ آزمائش مکمل ہو گی۔
عقل میں اگر اللہ کی طرف سے نور نہ ہو تو وہ بہت قریبی فائدہ دیکھتے ہوئے بڑے اور دیر پا فائدے کو اس پر قربان کر دیتی ہے ۔آپ نے عالمی طاقت کو افغانستان میں رسوا ہوتے نہیں دیکھا؟ عقل اور علم کی شیطان میں کوئی کمی نہ تھی۔اسی لیے اقبالؔ نے کہا تھا:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے