بین المذاہب ہم آہنگی، آخری موقع

December 16, 2021

قرآنِ پاک میں واضح طور پر کہا گیا ’’دین اسلام میں کوئی جبر نہیں ‘‘۔ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ، اپنی بنیادی اقدار امن، ہم آہنگی اور انسانیت کا پرچارک ہے۔ امن پسندبنے بغیر اچھے مسلمان یا مومن کا کوئی تصور نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے سراسربرعکس ہے۔ سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کامشتعل ہجوم کے ہاتھوںتوہینِ مذہب کے مبینہ الزام میں مارے جانا ایک چونکا دینے والا پریشان کن واقعہ تھا۔ ایک شخص کو دن دیہاڑے سڑک پر قتل کر دیا گیا جب کہ سینکڑوں لوگوں نے اپنے موبائل فون سے ویڈیوز بنائیں۔ اس واقعہ نے پاکستان کو ایک قوم کے طور پر شرمندہ کر دیا۔ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں تھا۔ اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے اس سے پیشتر بھی واقعات پیش آ چکے ہیں۔کچھ عرصہ قبل کوٹ رادھا کرشن میں ایک مسیحی خاندان کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔ اس مذہبی جنون کا مسلمانوں کو بھی نشانہ بنایا جاتارہا ہے۔ مشال خان اور سابق گورنر سلمان تاثیر اسی جنونیت کا شکار بنے۔ اعداد و شمار کے مطابق 1990 سے اب تک 80 سے زائد افراد ہجوم کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ روش ہمیں کہاں لے جائے گی؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟

پریانتھا کی موت نے پاکستان کے قومی تشخص کو داغدار کیا۔ عالمی سطح پر ہمیں معذرت خواہانہ موقف اختیار کرنا پڑا۔دنیا بھر میں اس واقعے کو بڑھا چڑھا کر بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیااور پاکستانیوں کو ظالم اور عدم برداشتکا شکار قوم ثابت کیا گیا۔ وہ بین الاقوامی کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری اور ملازمتیں پیدا کرنے پر غور کر رہی تھیںانہیں اپنے ارادوں پر نظر ثانی کرنا پڑی۔ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی غیر مسلم افرادی قوت کو پاکستان میں احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان کو مذہبی عدم برداشت کی محفوظ پناہ گاہ ہونے کا طعنہ دیا۔بھارت اگرچہ مذہبی انتہاپسندی میں پاکستان سے کہیں بدتر ہے لیکن اس واقعہ نے پاکستان کو زیادہ خطرناک بنا کر پیش کیا۔ اس طرح کے واقعات نہ صرف پاکستان کی نظریاتی اساس کو مجروح کرتے ہیں بلکہ یہ کشمیر پر پاکستانی موقف اور ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جاری اقدامات سے بھی عالمی توجہ ہٹانے کا باعث بنتے ہیں۔ پریانتھا کی موت پر ٹویٹر پر یہ تاثر عام رہا کہ مذہبی عدم برداشت، ظلم اور تشدد میں ہندوستان اور پاکستان کے انتہا پسند ایک جیسے ہیں۔حکومت سیاحت کی صنعت پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ کئی بین الاقوامی مشہور شخصیات نے پاکستان کے شمالی علاقوں کا دورہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیاکہ یہ سوئٹزرلینڈ سے بھی زیادہ خوبصورت علاقہ جات ہیں۔ اس واقعہ نے ان تمام اقدامات کو تلپٹ کر دیا۔پوری دنیا کے سامنے پاکستان کا امیج تباہ کر دیا گیا۔

نبی اکرمﷺ نے امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ آپﷺ نے کبھی تشدد کا پرچار نہیں کیا۔ وہ تمام مخلوقات کے لیے رحمت ہیں۔ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت ہونے کے ناطے امن اور محبت پھیلانا ہمارا فرض ہے۔ میثاق مدینہ سے پہلے تاریخ میں کوئی اور اس طرح کی دستاویز نہیں ملتی جس میں بنیادی انسانی حقوق پر زور دیا گیا ہو۔ یہ کیسے ہو گیا کہ مسلمان اتنا پستی کے شکار ہوگئے کہ اسلام کی بنیادی اقدار ہی بھول گئے۔ سیالکوٹ کی سڑکوں پر لوگ یہ بھول گئے کہ سزائے موت قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد صرف قاضی یا جج ہی دے سکتا ہے، غیر قانونی طور پر جان لینا قتل کے مترادف ہے۔ ایک بھی ایسی مثال نہیں ہے جب خونخوار ہجوم کے ہاتھوں کسی انسان کو جانور کی طرح قتل کرنے کا جواز پیش کیا جاسکتا ہو۔ نبی اکرمﷺ تو ساری کائنات کے لیے باعثِ رحمت ہیں۔ رسول اللّٰہ ﷺ کا پیغام بھلا دیا گیا ، صد حیف کہ ان کے نام پر غلط کو صحیح بنانے کی روش زور پکڑ رہی ہے۔

حکومت پاکستان اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ قانون حرکت میں آگیا (کاش ایسے واقعات سے پیشتر بھی آ جایا کرے)۔ پریانتھا کو مارنے والے درندے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ عمران خان نے دنیا اور پریانتھا کے اہل خانہ کو یقین دلایا ہے کہ انصاف ہوگا۔ پولیس نے قاتلوں کی شناخت میں نمایاںسرعت دکھائی۔ اس غیر انسانی فعل کے درمیان ملک عدنان کی صورت میں امید کی کرن جھلک رہی تھی۔ وہ شخص جس نے پریانتھا کی جان بچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔کاش اس دن ملک عدنان جیسے کچھ اور لوگ ہوتے تو شاید یہ سانحہ رونما نہ ہوتااور پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہوتی۔ عمران خان نے شہید کی یاد میں تقریب منعقد کی اور عدنان کو تمغہ شجاعت سے نوازا لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا اپنے ملک سے دور ایک بے بس انسان کو سینکڑوںکے ہجوم سے بچانا صرف ایک آدمی کا فرض تھا؟ باقی سب کہاں تھے؟

کوئی بھی جو یہ سمجھتا ہے کہ پریانتھا کا قتل جائز تھا، اسے اسلام کی بنیادی باتیں، قرآن کی تعلیمات اور ہمارے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جنہوں نے طائف کے لوگوں کو بھی رحمت کی دعا دی جنہوں نے آپ پر پتھر برسائے۔ اگر پاکستان میں مسلمان مذہبی اقلیتوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو یہ ایک قابلِ شرم اقدام ہو گا، اگر آج پاکستان میں کوئی اقلیت غیر محفوظ ہے تو کل کسی اور ملک میں مسلمانوں سے ویسا ہی سلوک ہو گا جیسا بھارت میں ہو رہا ہے۔یہ صرف پاکستان کے تشخص کا معاملہ نہیں بلکہ اُس نبیٔ رحمت ﷺ کی حرمت کا بھی معاملہ ہے جنہوں نے جانوروں تک سے رحم اور حسنِ سلوک کا درس دیا۔

(مضمون نگار جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)