تیرا سرمایہ یہی ہاتھ تو ہیں

August 22, 2013

بندہ بشر ہے، غلطی ہو ہی جاتی ہے اور غلطی یہ ہوئی کہ ایک آدھ کالم میں سیاست کے روزمرہ اتار چڑھاؤ سے ہٹ کر انسانی ترقی کے کچھ زاویوں اور بے رحم معاشی حقیقتوں کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔ اس پر کچھ احباب سیخ پا ہوئے اور خیال ظاہر کیا کہ سیاست کے گرم کیک کے بجائے معیشت کے ٹھنڈے چولہے کی کہانی سنانا دراصل سیاست کی تلخیوں سے فرار کے مترادف ہے۔ ارے بھائی، سیاست حتمی تجزیئے میں معیشت کی حرکیات ہی سے عبارت ہے۔ معیشت کے لکڑی، پتھر جیسے ٹھوس حقائق نکال دیئے جائیں تو سیاست محض مقتدر شخصیات کی نشست و برخاست کا روزنامچہ بن جاتی ہے۔ معیشت سے ہماری غفلت کی کہانی بہت پرانی ہے۔
1937ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنوٴ میں منعقد ہوا۔ مولانا شوکت علی سریر آرائے بزم تھے ۔ تقریر کے لئے اٹھے اور فرمایا ”سنو، جواہر لال (نہرو) کہتا ہے کہ مسلمانوں کا کلچر ولچر کوئی نہیں، یہ سارا جھگڑا روٹی کا ہے۔ ارے بھائی روٹی پر تو کتے لڑا کرتے ہیں“۔ جلسہ عام میں خوب قہقہے لگے، تالیاں پیٹی گئیں مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جو لوگ سیاست میں روٹی کی اہمیت کو نظر انداز کرتے ہیں، تاریخ ان پر ہنستی ہے۔ اب تو وزیراعظم نوازشریف نے بھی فرما دیا کہ ملک کو درپیش دو بڑے مسائل میں ایک امن و امان کا مسئلہ ہے اور دوسرا معیشت کی بحالی۔ اگر معیشت کی بحالی سے مراد پنجاب کے چوہدری ، سندھ وڈیرہ سائیں اور سیٹھ ٹائر جی کی دولت میں اضافہ نہیں تو اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ملک میں انسانی ترقی کی صورتحال بہتر بنائی جائے۔ کسی ملک میں انسانی ترقی کو ناپنے کے تین بنیادی پیمانے ہیں (اول) پیدائش کے وقت متوقع عمر کیا ہے؟ (دوم) شہری کتنے تعلیم یافتہ ہیں؟(سوم) ملکی باشندوں کے لئے باوقار زندگی گزارنے کے مواقع کیا ہیں؟ معیار زندگی میں شہریوں کی قوت خرید کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح 1.52فیصد ہے۔ تیونس، ایران، بھارت ، سری لنکا، نیپال اور بنگلا دیش میں آبادی میں اضافے کی شرح پاکستان سے کم ہے۔ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہے تو پاکستان میں معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں اوسط عمر 22.2 برس ہے ۔ پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر پاکستانی خواتین کی اوسط عمر 22.7برس ہوتی ہے۔ گویا آبادی کی اکثریت نوجوان ہے جن کی بڑی تعداد آئندہ چند برس میں تولیدی عمل میں شریک ہو جائے گی چنانچہ مستقبل قریب میں پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح مزید بڑھے گی۔ پاکستان میں پیدائش کے وقت متوقع عمر 63.75برس ہے۔ ہمارے اردگرد چین میں متوقع عمر 74.84 برس، ایران میں 70.56 سال اور بھارت میں 67.14 برس ہے۔ اس وقت 80 ممالک میں پیدائش کے وقت متوقع عمر 75 برس سے زائد ہے۔ پاکستان میں بالغ شرح خواندگی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 55فیصد کے قریب ہے۔ شرح خواندگی میں پاکستان دنیا کے 182 ممالک میں 155ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آج ناخواندہ افراد کی مطلق تعداد ساٹھ برس پہلے کے مقابلے میں 300 فیصد زیادہ ہے۔ اگر اس بیان کی جانچ کرنا ہو تو سمجھ لیجئے کہ1951ء میں مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ، 37 لاکھ 79 ہزار تھی اور شرح خواندگی13.8 فیصد تھی ۔ گویا ان پڑھ آبادی کی تعداد تین کروڑ سے کچھ کم تھی۔ آج آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 32 لاکھ ہے اور شرح خواندگی 55 فیصد۔ گویا ان پڑھ آبادی کی تعداد نو کروڑ سے زیادہ ہے۔ پاکستان تعلیم پر کل قومی پیداوار کا 2.4 فیصد خرچ کرتا ہے۔ اسرائیل کل قومی پیداوار کا 6.9 فیصد ، نیپال 3.4 فیصد ، بھارت 3.2 فیصد اور بنگلا دیش 2.7 فی صد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔
غربت کو صرف روپے پیسے کی کمی ہی سے نہیں بلکہ بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، پینے کے صاف پانی ، تعلیم ، رہائش اور علاج معالجہ سے محرومی کی بنیاد پر بھی پرکھا جاتا ہے۔ مئی 2013ء میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60فیصد آبادی کی روزانہ فی کس آمدنی 2 ڈالر سے کم ہے یعنی یہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان میں صرف 19.4 فی صد شہریوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔ 77 فی صد دیہی آبادی کو سرکاری طور پر مہیا کیا گیا صاف پانی میسر نہیں۔ پاکستان میں سفر، علاج معالجے، تعلیم ، تفریح کی سہولتیں ناگفتہ بہ ہیں۔ شہروں میں صفائی اور حفظان صحت کا انتظام نہایت خراب ہے۔ لاکھوں کی آبادی رکھنے والے شہروں میں لائبریری اور سینما جیسی سہولتیں عنقا ہیں۔
انسانی ترقی کی اس ناگفتہ بہ صورتحال کا نتیجہ معاشی، تمدنی اور علمی پسماندگی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ پاکستان میں انسانی سرمائے کے کم تر معیار کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کے باشندے صلاحیت یا ذہانت کے اعتبار سے دوسری قوموں سے پیچھے ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستانی ریاست نے اداروں اور پالیسیوں کی سطح پر شہریوں کی صلاحیت اور امکان کو پوری طرح بروئے کار لانے پر توجہ نہیں دی۔ کسی عام پاکستانی سے بات کی جائے تو وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ کارکردگی کے حامل افراد کی ایک فہرست گنوا دیتا ہے۔ حب الوطنی کے جوش میں کچھ معروضی حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے 62 برسوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے بیشتر شہری قیام پاکستان سے قبل ہی اپنی تعلیم اور تربیت ختم کر چکے تھے۔ ان کے بعد کی نسلوں میں جن پاکستانیوں نے اچھی کارکردگی دکھائی ان کی بڑی تعداد نے بیرون ملک تعلیم پائی ہے۔ گویا ان شہریوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں پاکستان کے تعلیمی اداروں کو دخل نہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان انسانی سرمائے کے انخلا کا شکار ہے۔ گویا پاکستان کے علمی ، معاشی اور انتظامی ادارے باصلاحیت شہریوں کو جذب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ تعجب ہے کہ اس ملک کی قیادت انسانی سرمائے کے اس انحطاط سے مکمل طور پر لاتعلق نظر آتی ہے۔
پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کسی شعبے میں اچھی صلاحیت کا مظاہرہ تو کرتی ہے لیکن ان کی کارکردگی میں تسلسل اور واضح حکمت عملی کا فقدان ہوتا ہے۔ بحیثیت مجموعی پاکستان کے باشندے معروضی تجزیئے اور تفصیلی منصوبہ بندی کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے داؤ پیچ کی حد تک مہارت بہم پہنچائی ہے لیکن طویل مدتی حکمت عملی کے ضمن میں پاکستانی شہریوں کی صلاحیت محل نظر ہے۔ علمی تحقیق کے ضمن میں پاکستان کا زیادہ حصہ ادبی تحقیق یا مذہبی موشگافیوں پر محیط ہے۔ سائنسی تحقیق ، ایجادات ،تمدنی اپج اور تجرباتی رجحان کے ضمن میں پاکستانیوں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں علمی اور تمدنی مکالمہ رک گیا ہے کیونکہ نظریاتی تقدیس کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی اور دانشورانہ دیانت کو دبا دیا گیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ایک بھی ایسا ادارہ نہیں جسے عالمی معیار کے پہلے100تعلیمی اداروں میں بھی شمار کیا جا سکے۔ دنیا بھر میں علم کے فروغ اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث نوجوانوں کی صلاحیت اور کارکردگی پچھلی نسلوں سے بڑھ کر ہے لیکن پاکستان میں نمایاں یا اوسط کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا جو شخص رخصت ہوتا ہے، اپنے پیچھے ایک خلا چھوڑ جاتا ہے کیونکہ مطلوبہ تعداد میں مسابقت پذیر تعلیمی اور پیشہ ورانہ استعداد رکھنے والے نوجوان سامنے نہیں آرہے۔
انسانی ترقی مسائل کی پیش گوئی کرنے، ان کا تجزیہ کرنے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت کا نام ہے اور اس پیمانے پر پاکستان انسانی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔ انسانی ترقی کا یہ بحران آئندہ کئی عشروں تک پاکستان کی مجموعی پسماندگی پر منتج ہو گا۔ سماجی ڈھانچوں اور اقدار میں ضروری تبدیلیوں نیز سیاسی استحکام کے بغیر اس بحران کا خاتمہ ممکن نہیں۔