مادہ پرستی اور گنگوتیلی

August 23, 2013

گل دیگر شگفت ...جناب عطاء الحق قاسمی ”مادہ پرستی“ سے مخاصمت رکھتے ہیں۔ استادِ ممتاز !”کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی“ آپ جس شعبے کے استاذ الاساتذہ میں شمار ہوتے ہیں ، ہم ایسے تو وہاں طفل مکتب بھی نہیں۔ آپ بحر علم و ادب کے شناور، ہم جہالت کے ایفل ٹاور ۔ آپ مصنف کتب کثیرہ جبکہ لاعلمی ہمارا وتیرہ۔ ”ہمیں“ کلرک کوئی نہیں لگاتا اور آپ نے سینیٹر اور سفیر بننے کی پیشکش مسترد فرمائی۔ آپ کے علمی قدوقامت کو ہم جیسوں کی ”بے نیازیاں“ ایڑیاں اٹھا کر بھی دیکھنے کی سعی کریں تو کوتاہ نظریں آپ کے ٹخنوں سے اوپر جانے سے قاصر رہتی ہیں۔ آپ کی لافانی تخلیقات اور فہم و دانش پر چاروں گورنر ہاؤس قربان۔ اگر آپ گورنر ہاؤس میں جلوہ افروز ہوتے تو وہ بھی ہماری طرح ”جمالِ ہم نشیں درمن اثر کرد، وگرنہ من ہما خاکم کہ ہستم “ کی مثال ہو جاتا۔ آپ کی مصاحبت کا کرشمہ ہے کہ ہم بے نواؤں کو بھی قلم پکڑنا آ گیا تاہم آپ کے درِ حاجت روا سے کسب فیض کے باوجود مادہ سے متعلق آپ کے خیالات سے ہمیں بصد احترام اختلاف ہے۔
استاد محترم ! گستاخی معاف ، آپ نے مادہ کی مسلمہ اہمیت سے انحراف فرمایا ہے ۔ بصد ادب عرض ہے کہ اس مادی دور میں ”مادہ“ ہی تمام دلچسپیوں کا محور ہے اور تصویر کائنات کے سارے رنگ اسی کے مرہون منت ہیں۔ اپنی مادہ کے بغیر انسان تو کجا، چرند پرند اور ڈھور ڈنگر بھی نامکمل ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ابن آدم کی تمام تر دلچسپیاں ”مادہ“ ہی کے گرد گھومتی ہیں اور جھومتی ہیں ۔ مادہ کے بغیر عہد نو کی آلودگیاں بھی نامکمل ہیں اور عہد رفتہ کی بالیدگیاں بھی ادھوری۔ اشتہارات سے لے کر فلموں اور تقریبات سے لے کر اسمبلیوں تک ہر شعبہ حیات کی رونق مادہ کی لامنتہا شکلوں اور مقدار ہی کے دم سے ہے۔ کھلے چہرے ، ہرے ، نیلے ، پیلے، سرخ پیرہن اور شوخ و شنگ کھنکتے لہجے کہ جیسے گنگناتی کہکشاں زمین پر اتر آئی ہو۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ کوہ ، دشت ، صحرا، خلا اور سمندر پر حکمرانی کرنے والا دل گیسو، ابرو اور چشم سیاہ کے آگے آن کی آن میں ڈھیر ہو جاتا ہے۔ آپ اس حقیقت کو کیسے جھٹلائیں گے کہ فنون لطیفہ کی تمام اصناف شاعری ، مصوری ، آرٹ ،موسیقی ، رقص وغیرہ کا مرکزی نکتہ بھی ”مادہ“ ہی ہے۔ اس کی آنکھوں ، خدوخال کی رعنائی اور عارض و رخسار کے قصیدے اور نسائی وجود کی خوبیوں اور نشیب و فراز کی وضاحت پر دیوان کے دیوان لکھ دیئے گئے۔ ابن آدم جو بھوکے پڑوسی کو ایک نوالہ دینے کا روادار نہیں، وہ افادہٴ عام کے لئے بادہ عشق سے سرشار گل رخوں اور حور شمائلوں سے سجے عشرت کدوں میں عشو و ادا پر اپنی کمائی لٹا آتا ہے۔ ہم نے گناہ گاروں کی شاموں میں زہرہ جبینوں کی مناجات کے قصے بھی سنے ہیں اور پارساؤں کی شبینہ وارداتوں کی داستانیں بھی۔ دونوں کا منتہائے مقصد ”مادہ“ کی خوشنودی ہے اور اس کے التفات سے فیضیاب ہونے کے لئے فریقین کے خوابوں کے نگر یکساں طور پر گلابی ہیں۔ ”کون دلاں دیاں جانے ہو“ …کون جانے کس دل میں کتنے بت ایستادہ ہیں اور یہ نگار خانہ کتنے اور شہ پاروں کا متمنی ہے ؟ اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ انسان ساری عمر اپنی مادہ اور اس کے بچوں ہی کے لئے تو محنت مشقت کرتا ہے پھر”مادہ پرستی“ کی مخالفت چہ معنی دارد؟
مادہ کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے ایک آپ بیتی زیر نظر ہے۔ دسمبر کی ایک شام کا ذکر ہے کہ ہمیں ذہنی امراض کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ایک مریض کی عیادت کے لئے جانا پڑا۔ڈیوٹی ڈاکٹر صاحب ایک جونیئر سائیکارٹرسٹ تھے، ان سے تھوڑی گپ شپ ہوئی تو ہم نے انہیں زیرک ، ذہین اور مردم شناس پایا۔ اتفاق سے انہیں بھی ہمارے بارے میں کچھ ایسی ہی غلط فہمی ہو گئی اور انہوں نے ہمیں دفتر میں چل کر چائے پینے کی دعوت دے دی۔ سارا اسٹاف رات دس بجے چائے بنا کرپیتا تھا اور اس وقت ساڑھے نو بجے تھے۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب نے انسانی نفسیات سے متعلق پُرمغز گفتگو شروع کردی۔ مقرر اور سامع دونوں مرد تھے، سو لامحالہ یہ گفتگو گھومتی گھماتی ”مادہ“ کی نفسیات اور ”نر“ کی اس میں دلچسپی کی باریکیوں پر آ کر ٹھہر گئی۔ موصوف نے ہمیں اس سلسلے میں بڑی قیمتی باتیں بتائیں مثلاً یہ کہ آپ جتنی بھی محنت سے بال بنائیں یا اچھے کپڑے پہن کر مادہ کو متاثر کرنے کی کوشش کریں مگر اس کی پہلی نظرآپ کے جوتوں پر پڑتی ہے، جو اگر صاف نہیں تو وہ آپ کو صفر سے ضرب دے دیتی ہے۔ بہرحال ان باتوں کی تفصیل میں جا کر کسی کا بھلا کرنا مقصود نہیں، ہم اپنے موضوع پر ہی رہیں گے۔ سوا دس بج گئے مگر چائے نہ آئی، جوں جوں وقت گزرتا رہا، سائیکاٹرسٹ کے چہرے پر اضطراب کے بجائے مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ ساڑھے دس بجے انہوں نے کہا کہ جو کچھ تھیوری میں نے اب تک آپ کو پڑھائی ہے، اس کے پریکٹیکل کا وقت آ گیا ہے۔ انہوں نے بیل دی تو ایک ملازم اندر آیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے چائے کی بابت پوچھا تو اس پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔منحوس شرمندہ ہوکر بولا کہ معاف کر دیں سر، ہم خوش گپیوں کے دوران چائے پیتے رہے اور آپ اور مہمان کا خیال ہی نہ رہا۔ وہ ”ابھی لایا“ کہہ کر مڑا تو ڈاکٹر صاحب نے اسے روک لیا اور پہلے تمام میل اسٹاف کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔ چھ سات مشٹنڈے آ کر سر جھکائے شرمندہ سے کھڑے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے تو دوستانہ انداز میں مسکراتے ہوئے انہیں ریلیکس کیا اور پھر کہا کہ میرے سوالات کے صحیح صحیح جوابات دو۔ پہلا سوال انہوں نے یہ کیا کہ کیا نرسوں کو چائے پہنچا دی گئی ہے؟ اجتماعی جواب اثبات میں تھا۔ اب اس ماہر نفسیات نے پوچھا کہ سوچ کر بتاؤ اگر میری جگہ ”مادہ ڈاکٹر“ ڈیوٹی پر ہوتی تو کیا تم لوگ اسے بھی چائے دینا بھول جاتے؟ کم بختوں کی باچھیں کھل گئیں اور وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کو اشارے کرنے لگے۔ سب کا فرداً فرداً جواب تھا کہ وہ خود سب سے پہلے ڈاکٹر صاحبہ کو چائے پیش کرنے کا مشتاق ہوتا بلکہ شاید اس کے سلسلے میں ان میں جھگڑا بھی ہو جاتا کہ کون یہ سعادت حاصل کرے گا؟ چائے پیتے ہوئے اس ماہر نفسیات نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا کہ انسان جتنی ریاضت ”مادہ“ کا قلب رواں کرنے کے لئے کرتا ہے اتنی اگر امن کے لئے کرتا تو دنیا امن کا گہوارہ ہوتی۔
پس دریں حالات ثابت ہوا کہ”مادہ“ کے بغیر جادہٴ زیست بے کیف و بے رنگ ہے لہٰذا اپنے استادِ عظیم کی خدمت میں التماس ہے کہ براہِ کرم ”ماورائے مادہ“ کوئی رائے قائم کر کے قانون فطرت اور لطیف انسانی جذبات کی نفی کرنے سے اجتناب فرمائیں۔ ویسے بھی ایسی زاہدانہ خشکی آپ کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ خود ہم نے آپ کا وہ کالم پڑھا ہے جس میں آپ نے بھلے وقتوں میں احمد ندیم قاسمی کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے کسی خوش اطوار ”مادہ“ کو دیکھ کر ”ماشاء اللہ“ اور ”انشاء اللہ“ جیسے اپنے عزائم کا اعتراف کیا ہے۔ شاید آپ نے اپنے اوپر کئے گئے وجاہت مسعود کے طنز پر غور نہیں فرمایا کہ ”آپ نے ماورائے مادہ ایک رائے قائم کی،آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اور استقامت کی دعا کرتا ہوں“۔ وہ جانتے ہیں کہ آپ سدا بہار اور آپ کا دل جوان ہے، اسی لئے انہوں نے ”استقامت“ کی دعا کی ہے تاہم اگر بقول آپ کے آپ کا موقف درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ عمر کے تقاضے کے پیش نظر اب آپ ”انشاء اللہ“ نہیں کہتے تو بھی درخواست ہے کہ خدارا دوسروں کے لئے زندگی کی توانائیوں سے لبریز اور ”مثبت سوچ“ کی بادِ نسیم کا رستہ نہ روکیں ۔ مادی دور ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس پندو نصاح کے جواب میں کوئی ”مادہ پرست“ آپ سے گستاخی کر بیٹھے کہ
آج کر لیتے ہیں واعظ خوب تر کا فیصلہ
تو بلا لے حور کو ، یار کو لاتے ہیں ہم