عالم گیر وبا کے تھپیڑے تعلیم پر پڑتے رہے

December 30, 2021

ڈاکٹرسید جعفر احمد

ڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ، کراچی

پاکستان کے تعلیمی منظرنامے پر2021ء میں دو موضوعات نمایاں طور پر چھائے رہے۔ ان میں ایک موضوع تو کورونا کی وبا کی وجہ سے تعلیمی اور تدریسی عمل میں رکاوٹوں اور خلل کے پیدا ہو جانے اور اسی حوالے سے وفاقی اور سندھ کی حکومتوں کی سوچ اور اقدامات کے اختلاف کا موضوع تھا۔ دوسرا موضوع یکساں نصابِ تعلیم کے حوالے سے ہونے والے مباحث اور اقدامات تھے ،جن کا آغاز2018ء میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی سے شروع ہو چکا تھا۔

2021ء میں یکساں قومی نصاب کی تیاری کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی مگر اس مہم کے آغاز سے جن تنازعات کا آغاز ہوا تھا وہ بھی اس سال جاری رہے، بلکہ جوں جوں یکساں قومی نصاب کی تیاری کے مراحل آگے بڑھے ویسے ویسے نئے سوالات نے بھی جنم لیا۔ چونکہ اس مہم کے آغاز کے وقت ہی سے اس کے پیچھے کارفرما بنیادی مفرو ضات، اس کے طریقۂ کار اور متوقع نتیجہ خیزی کے بارے میں مختلف اور متضاد آرا سامنے آنے لگی تھیں، لہٰذا وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان حوالوں سے اختلافِ رائے بھی بڑھتا چلا گیا۔ یکساں نصابِ تعلیم کے موضوع پر ہم اس مضمون کے دوسرے حصے میں گفتگو کریں گے۔ پہلے، وبا کے دنوں میں تعلیم پر جو گذری اس کا احوال ۔

وبا کے دنوں میں تعلیم پر کیا گذری؟

پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت 2018ء میں قائم ہوئی۔ پی ٹی آئی نے اپنے منشور کو ’نئے پاکستان کی طرف سفرـ‘ (Road to New Pakistan) کاعنوان دیا تھا۔ ساٹھ صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں تعلیم کے حوالے سے ایک بہت ہی آرزومندانہ (ambitious) پروگرام پیش کیا گیا تھا۔ اس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد پی ٹی آئی پرائمری ، سیکنڈری، ہائر سیکنڈری، یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم، ووکیشنل تعلیم اور اسپیشل ایجوکیشن میں دور رس اصلاحات متعاف کرے گی۔ منشور میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کی تعداد اور ان کے معیار میں اضافے کے ساتھ ساتھ خواندگی کے پروگرام کو یونیورسٹی کے طالبعلموں کی مدد سے آگے بڑھایا جائے گا۔

پچاس ہزار یونیورسٹی طلبا رضاکارانہ طور پرناخواندہ لوگوں کو خواندہ بنانے کے پروگرام میں حصہ لیں گے جس کے بدلے ان کو امتحانات میں کریڈٹ دیا جائے گا۔ منشور میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی ( جن کے لیےSTEM کی اصطلاح وضع کی گئی)، کے معیار کو بڑھانے کے لیے جدید سازوسامان ، تربیتی ورکشاپس اور ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے گا۔ منشور میں ایک اہم اعلان یہ کیا گیا تھاکہ ملک بھر میں دینی مدارس کے نصاب کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور دوسرے اسکولوں کے نصاب کے برابرلانے کے لیے انگریزی ، سائنس اور ریاضی کے مضامین کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔

اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ جامعات میں اساتذہ، وائس چانسلروں، اور انتظامی عملے کے تقرر کے عمل کو شفاف بنایا جا ئے گا، اور اس عمل کو سیاسی مداخلت سے پاک اور میرٹ کی بنیاد پر استوار کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے کوئی ڈیڑھ سال بعد کورونا کی وبا در آئی، اور تعلیمی نظام کا سارا رخ اس وبا سے عہدہ برآ ہونے کی جانب مڑ گیا۔ اب جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں آئے سوا تین سال ہو رہے ہیں ، اب بھی وبا ہی کا موضوع زیادہ تر زیرِ بحث ہے اور لوگوں کا ذہن منشور میں کیے گئے دوسرے بڑے تعلیمی وعدوں کی طرف نہیں جا رہاسوائے یکساں قومی نصاب کے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت بھی کم ہی ان وعدوں کی طرف متوجہ نظر آتی ہے۔

جہاں تک کورونا کی وبا کے اثرات کا تعلق ہے، ہمارا ریاستی ڈھانچہ، ہمارا نظمِ حکمرانی، حکومتی ادارے اور عمّال، عام حالات میں بھی کسی اچھے معیار کی کارکردگی نہیں رکھتے۔ بڑی قدرتی آفات، مثلاً سیلابوں اور زلزلوں کے موقع پر یہ اپنے دیوالیہ پن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ آفات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پہلے سے کوئی بنیادی تیاری نہیں کی گئی ہوتی، ضروری سازو سامان میسر نہیں ہوتا، متعلقہ محکموں اور افرادِ کار کے پاس ماضی میں ایسے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی۔

کورونا کی وبا چین سے شروع ہو کر ہفتہ دس دن میں ایران سے بلوچستان اور پھر مختلف ممالک سے آنے والے مسافروں کے طفیل پاکستان میں پھیلنا شروع ہوئی تو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خاصا وقت لگا سنبھل کر بیٹھنے اور اپنی پالیسیاں بنانے کے لیے۔ آئندہ مہینوں میں وفاقی مرکز اور صو بوں کے درمیان صورت حال کے تجزیے اور وبا سے نمٹنے کے موضوعات پر اختلافات، جہاںحکومتوں کے ذہنی خلفشار کا مظہر تھے، وہیں خود وفاقی حکومت بشمول وزیرِ اعظم اور وزراء ذہنی یکسوئی کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے تھے۔

وفاقی اور سندھ حکومتوں کے اختلافات ذرائع ابلاغ میں مریضوں کی نگہداشت کیونکر ہو، کورونا کے ٹیسٹ کہاں اور کس طرح کیے جائیں۔ یہ سب مسائل تھے جن سے ملک کے سارے شہری دوچار ہو رہے تھے۔ ان ہی مسائل کے جلَو میں تعلیم سے متعلق مسائل نے بھی پریشانیاں پیدا کیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش اور طلبا کی طویل وقفوں کے لیے تعلیم سے دوری کا نقصان ایک بڑے بحران کا سبب بن رہا تھا۔

وبا کے آغاز پر ہی تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے، لیکن چند ہفتوں بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں، خاص طور سے وفاقی حکومت اورسندھ کی حکومت کے طرزِ فکر اور پالیسیوں کے فرق نے طالبعلموں، والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے لیے ایک نہ ختم ہونے والامباحثہ شروع کر دیا تھا۔ یہ بحران 2021ء میں بھی جاری رہا۔ اس بحران کے کئی ضرر رساں پہلو سامنے آئے:

(1)تعلیمی ادارے کم یا زیادہ مدت کے لیے بند رہے۔ اسکولوں کو کم از کم چار سے پانچ ماہ بندش کا سامنا کرنا پڑا جس کے دور رس نتائج مرتب ہوئے اور ہو رہے ہیں۔

(2 ) مکمل بندش کی صورت میں تعلیمی اداروں نے آ ن لائن پڑھائی کا طریقہ اختیار کیا، مگر اس کے اپنے بہت سے مسائل تھے ،مثلاً سب طالبعلموں کے پاس لیپ ٹاپ موجود نہیں تھا، بہت سے علاقوں میں جہاں بچے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے وہاں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ دورانِ لیکچر انٹرنیٹ کا رابطہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، اسکول کے بچوں کی اکثریت کے لیے آن لائن پڑھائی بالکل نئی چیز تھی، بچے والدین کی مدد کے بغیر پڑھائی نہیں کر سکتے تھے، والدین کی عدم موجودگی، عدیم الفرصتی یا ان کا خود تعلیم یافتہ نہ ہونا بچوں کی آن لائن پڑھائی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنتا رہا۔

(3) بعض اداروں نے مخلوط طریقۂ تدریس (Hybrid System ) کا انتخاب کیا۔ یہ طریقہ کسی حد تک سودمند تو تھا مگر معمول کی کلاسوں کا متبادل نہیں تھا۔ طالبعلموں کی کلاس میں شرکت ضروری تھی مگر حاضری کی شرط عائد نہیں کی جا سکتی تھی، کیونکہ نیٹ ورک کے ذریعے رابطہ دورانِ کلاس ٹوٹ سکتا تھا، اور اس صورت میں طالبعلم کی حاضری بھی یقینی نہیں رہتی تھی۔

(4 ) آن لائن تدریس کے جو اعدادو شمار سامنے آئے ہیں ان کی رو سے اساتذہ کو کورس کی تکمیل میں شدید دشواریوں کا سامنا کرناپڑا۔

(5) طویل بندشوں کے نتیجے میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ طلبہ کو بغیر امتحان کے اگلے درجے میں جانے دیا جائے۔ ایک دفعہ یہ رجحان بن گیا تو جن تعلیمی بورڈز میں اس کا فیصلہ ہونے میں تاخیر ہوئی وہا ں طلبہ نے مظاہرے کیے اور مطالبہ کیا کہ انہیں بغیر امتحان کے اگلی کلا س میں جانے دیاجائے۔

(6 ) طویل بندش کے بعد جب اسکول کھلے تو طلبہ کا تعلیم کے ساتھ تعلق مجروح ہو چکا تھا۔

(7) تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسکول کھلنے پر بعض بچے واپس ہی نہیں آئے۔ یہ زیادہ تر غریب گھرانوں کے بچے تھے، جنہوں نے اسکول کی بندش کے زمانے میں چھوٹا موٹا کام کرنا شروع کر دیا تھا کیونکہ کورونا کی وبا کی وجہ سے ان کے والدین کے روزگار پر بھی برا اثر پڑا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق بیس فیصد بچے اسکول کھلنے پر فوراً واپس نہیں آ سکے تھے۔

(8) اعلیٰ تعلیم کے ادارے وبا کے نتیجے میں چند اضافی مسائل کا شکار ہوئے۔ جن طلبہ کی تعلیم سولہ سال میں تکمیل پانی تھی،ان کی مدت دراز ہو کرسترہ یا اٹھارہ سال تک پہنچ گئی ۔یوں ان کی زندگی کا کم از کم ایک سال ضائع ہو گیا۔

کیا مستقبل میں جب حالات معمول پر آ جائیں گے تو وہ طلبہ جن کی تعلیم وبا کے ان دنوں میں متاثر ہوئی ہے، مقابلے کے امتحانات اور انٹرویوز میں ان طلبہ اور دیگر امید واروں میں تفریق نہیں کی جائے گی؟ بعض بیرونی ملکوں میں ایسے طلبہ کے لیے اضافی یا ریفریشر کورسز کی تجویز پر عمل ہو رہا ہے، تاکہ وبا کے دنوں میں ان کا جو نقصان ہوا ہے، وہ مستقل طور پر ان کے کیرئیر کو متاثر نہ کرے۔

یکساں نصابِ تعلیم کا مسئلہ

یکساں قومی نصاب روزِ اول سے پی ٹی آئی کی حکومت کا تعلیم کے شعبے میں بنیادی تصور اور نعرہ تھا۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ تمام طالبعلموں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم بلا تفریق فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ یکساں نصابِ تعلیم کے پیچھے قومی وحدت کا خیال بھی تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ ملک کے تمام صوبے اور دیگر علاقے ایک ہی نصاب کے ذریعے ایک مضبوط قوم بنا سکیں گے۔

یہ خیال بھی پیشِ نظر تھا کہ یکساں نصاب کے ذریعے معاشرے کی طبقاتی تقسیم کو بھی ختم کیا جا سکے گا۔ یہ سب مفروضے ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کے بھی پیشِ نظر رہے ہیں لیکن ان سے وہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے جن کی خاطر ان کو رو بہ عمل لایا جاتا رہا۔ اصولاً ان دعووں اور وعدوں کے ساتھ آگے بڑھنے سے قبل ماضی کے ایسے ہی اقدامات کے کارگر نہ ہونے کا تنقیدی جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔

یکساں نصاب کی تیاری کے مقصد کے پیشِ نظر ’وزارت برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت‘ نے’نیشنل کریکولم کونسل‘ کی تنظیمِ نو کی اور اس کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ کونسل نے یکساں نصاب کے تصور کو عملی شکل دینے کی خاطر’ٹیکنیکل ایکسپرٹ کمیٹی آن کریکولم‘ تشکیل دی جس نے یکساں نصاب کے لیے تین مراحل پر مشتمل حکمتِ عملی کا اعلان کیا۔

اس حکمتِ عملی کے تحت 31 مارچ 2020ء تک پہلی سے پانچویں جماعت تک، 31مارچ 2021ء تک چھٹی سے آٹھویں جماعت تک، اور 31 مارچ 2022ء تک نویں سے بارہویں جماعت تک کے نصابات کو تیارہونا تھا۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ یکساں نصاب کی تیاری کے عمل میں پبلک اور پرائیواٹ سیکٹر کے اداروں سے وابستہ اساتذہ و منتظمین اور دینی مدارس سے متعلق علما ء اور اساتذہ کو مشاورت کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ اس پورے عمل میں صوبائی حکومتوں کو بھی مشاورت کا حصہ بنایا جائے گا۔

یکساں نصاب ہی کے ضمن میں کچھ رہنما دستاویزات تیار کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ مثلاً معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی وحدتوں سے مشاورت اور کیمبرج کے نظام سے اخذ و اکتساب کی خاطر ایک دستاویز تیار کرنے کااعلان کیا گیا۔ پاکستان کے نصاب کا سنگاپور اور کیمبرج کے نصابات سے بھی موازنہ کیا گیا۔ پاکستان میں بچوں کے سیکھنے کے معیار اور سنگاپور، ملائیشیا، انڈونیشیا اور برطانیہ کے معیارات کے موازنے سے نتائج اخذ کرنے اور انہیں نئے نصاب کی تیاری کے عمل میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ بھی فیصلہ ہوا کہ قومی نصاب کے ڈرافٹ کی تیاری کے بعد اس کو وفاقی وحدتوں ، کیمبرج یونیورسٹی اور مختلف کنٹونمنٹس اور گیریژنز میں وفاقی حکومت کے تعلیمی اداروں کو بھیجا جائے گا۔ اور موصولہ مشوروں کی روشنی میں دوسرا ڈرافٹ بنایا جائے گا۔اس ابتدئی کام کے بعد پانچویں تک کے نصاب کو وفاقی وحدتوں، کیمبرج یونیورسٹی اور مختلف گیریزنز اور کنٹونمنٹ بورڈز میں قائم وفاقی حکومت کے تعلیمی اداروں کو بھجوایا گیا۔ان مختلف مقامات سے موصول ہونے والی سفارشات کی روشنی میں یکساں قومی نصاب کا دوسرا مسودہ تیار ہوا۔ اس مسودے کو ایک نیشنل کانفرنس سے گذار کر’ نیشنل کریکولم کونسل‘ سے منظور کرایا گیا۔

قومی نصاب میں مختلف مضامین کے حوالے سے مختلف نکات شامل کیے گئے ہیں۔ مثلاً انگریزی کو ایک مضمون کے بجائے ایک زبان کے طور پرشاملِ نصاب کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بچے ریاضی اور دوسرے مضامین کی ابتدائی تعلیم بھی انگریزی زبان میں حاصل کریں گے ۔اسلامیات کو اب بطور ایک مضمون کے پہلی جماعت سے پڑھایا جائے گا۔ ماضی میں اسلامیات کوایک الگ مضمون کی شکل میں تیسری جماعت سے پڑھایا جاتا تھا۔قرآنِ کریم کی تدریس لازمی قرار دی گئی ہے۔ ناظرہ قرآن کے علاوہ پہلی سے بارہویں جماعت تک دو سو احادیث کا پڑھنا اور چالیس احادیث کا حفظ کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔

یکساںقومی نصاب کی جملہ تفصیلات میں جانے کی یہاں گنجائش نہیں ہے لیکن ان امور کی نشاندہی یہاں ضرور کی جا سکتی ہے جو بحث و مباحثے کا موضوع بنے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی موضوع بن چکی ہے ،لہٰذا نصاب سازی صوبوں کا کام ہے نہ کہ مرکز کا۔ مرکز میں جو تعلیم کی وزارت قائم ہے وہ بجائے خود زیرِ بحث رہی ہے کہ اس کا وجود آئین سے کیا مطابقت رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس وزارت کا نام کئی بار تبدیل کیا گیا ہے۔ اور اب اس کا نام ’وفاقی وزارتِ تعلیم‘ نہیں، بلکہ ’وزارت برائے وفاقی تعلیم ‘رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ یہ وزارت اسلام آباد، دیگر وفاقی علاقوں اور مختلف صوبوں میں پائے جانے والے براہِ راست طور پر وفاق کے تحت آنے والے تعلیمی اداروں سے متعلق ہے، لیکن چونکہ آئین میں ’معیارات‘ (standards ) کو ایک مضمون کے طور پر وفاقی فہرست میں رکھ دیا گیا ہے، لہٰذا اس لفظ کی رعایت سے مذکورہ وزارت جملہ تعلیمی نظام بشمول صوبائی دائرہ کارمیں مداخلت کی گنجائش نکال لیتی ہے۔

اس وقت چونکہ مرکز کے علاوہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہیں، اور بلوچستان میں بھی اس کی حلیف جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت بر سرِ اقتدار ہے، لہٰذا ان تین صوبوں کی طرف سے مرکز کی نصاب سازی کی پیش قدمی کی کوئی مخالفت نہیں ہوئی۔ سندھ کی حکومت نے شروع سے اب تک باوجود مختلف اجلاسوں میں شریک ہونے کے یکساں قومی نصاب کی تیاری میں مرکز کے کردار اور اس کے نتیجے میں بننے والے نصاب کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس تنازعے کی بنیادی وجہ ہمارے مقتدر ریاستی اداروں اور ہماری حکومتوں کی روایتی مرکزیت پسندانہ سوچ ہے، جس کے مطابق ایک قوم کے لیے ایک ہی نصاب ضروری سمجھ جاتا ہے۔

دنیا کے بیشتر وفاقی نظاموں میں معاشرتی تنوعات کو تسلیم کرتے ہوئے وحدتوں کو نصاب سازی کا اختیار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے سے قومی وحدت مجروح نہیں ہوتی، بلکہ تکثیریت میں اتحاد (Unity in diversity) کے تصور کی قبولیت کہیں زیادہ مضبوط قومی وحدت کو یقینی بنا دیتی ہے۔ وفاقی مملکتوںکے داخلی اتحاد کی حرکیات (dynamics)بہت معنی خیز ، قابلِ عمل اور قومی اتحاد کے نقطۂ نظر سے بہت سود مند ثابت ہوتی ہیں۔

مثلاً پاکستان کے کیس میں صوبے اپنے نصاب تشکیل دیتے ہوئے اور آئین کے فراہم کردہ فریم ورک میں مختلف صوبائی تعلیمی وزارتیں، ٹیکسٹ بک بورڈز ، اساتذہ، ماہرینِ تعلیم اور خاص طور سے نصاب کی تیاری سے وابستہ اساتذہ دوسرے صوبوں کے اپنے ہم منصبوں سے رسمی اور غیر رسمی رابطوں کے ذریعے اس راہِ عمل کو اختیار کر سکتے ہیں، جومشترکات پر مشتمل نصاب اور نظامِ تعلیم پر منتج ہو سکتا ہے اور یہی نصاب صحیح معنوں میں یکساں قومی نصاب کہلانے کا مستحق ہو گا۔

موجودہ قومی نصابِ تعلیم ایک اور بنیادی غلط مفروضے کو سامنے رکھ کر تشکیل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ شروع سے ہی یہ کہا جا رہا ہے کہ یکساں نصاب پاکستان کے طبقاتی نظامِ تعلیم کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نہ تو نصاب اور نہ ہی نظامِ تعلیم بجائے خود معاشرے کو طبقاتی بنانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

یہ طبقاتی معاشرہ ہوتا ہے جو طبقاتی نظامِ تعلیم اور طبقاتی نصاب کا اہتمام کرتا ہے۔ نصاب اور نظامِ تعلیم طبقاتی معاشرے کو مستحکم تو کرتے ہیں، لیکن خود معاشرے کو طبقاتی بنانے کی بنیاد نہیں رکھتے، چنانچہ معاشرے کی طبقاتی بنیادوں کو ختم یا کمزور کیے بغیر محض نصاب اور نظامِ تعلیم طبقاتی معاشرے کو ختم نہیں کر سکتے۔ اور اگر ایسا کرنے کی کوئی کوشش کی بھی جائے تو وہ جلد ہی پا درِ ہوا ثابت ہوتی ہے۔ اس کا ثبوت بھی سامنے آنے میں دیر نہیں لگی۔

چنانچہ یکساں قومی نصاب کے اجراء کے ذرا بعد اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھی گئی کہ ملک کے جو مختلف تعلیمی نظام ہیں، مثلاً سرکاری اور پرائیویٹ ادارے، کانوینٹ ادارے، فوج کی نگرانی میں چلنے والے ادارے، اور دینی مدارس ، سب اپنی جگہ پہلے کی طرح کام کرتے رہیں گے۔ یہی نہیں بلکہ وزیرِ تعلیم سمیت مختلف فیصلہ ساز جنہوں نے نصاب سازی میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، اب یہ وضاحتیں کر رہے ہیں کہ یکساں نصاب دراصل زمین کی حیثیت رکھتا ہے، اس کی حیثیت چھت کی نہیں ہے، گویا یہ تو کم سے کم نصاب ہے، مختلف ادارے اس میں اپنے طور پر نہ صرف اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ سنگاپور، کیمبرج اور دوسرے بیرونی اداروں کی کتابیں بھی شامل کر سکتے ہیں۔

سوچا جا سکتا ہے کہ ملک کے پسماندہ طبقات جو زیادہ سے زیادہ سرکاری اسکولوں تک ہی رسائی رکھتے ہیں، جہاں نہ وسائل ہیں اور نہ ہی وہ اساتذہ جو کیمبرج اور سنگاپور کی کتابوں کو پڑھانے کا تجربہ رکھتے ہیں، وہ اس رعایت سے کیونکر فائدہ اٹھائیں گے۔ ہمارے ٹیکسٹ بک بورڈز جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول کے بچوں کو مفت نصابی کتابیں فراہم کریں، اور جو وہ بمشکل ہی بر وقت فراہم کر پاتے ہیں، کیا وہی بچوں کو کیمبرج اور سنگا پور کی کتابیں بھی سپلائی کریں گے؟ دوسرے لفظوں میں نظام اور نصابِ تعلیم کے ذریعے پاکستان کے طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی بات یا تو مکمل دھوکہ دہی ہے یا اگر یہ کچھ خوش خیال لوگوں کا خواب ہے تو یہ خواب نشنۂ تعبیر ہی سے محروم رہے گا۔

یکساں نصاب کے حوالے سے ایک اور غلط مفروضہ یہ قائم کیا گیا کہ دینی مدارس کے اندر انگریزی، سائنس اور ریاضی کے اسباق پڑھانے سے یہ تعلیم کے مرکزی دھارے میں شامل ہو جائیں گے۔ ایسا سوچتے وقت مذکورہ مضامین ہی کے بارے میں سوچا گیا اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ مضامین کی تدریس کا طریقہ کیا ہے؟ بدقسمتی سے دینی مدارس میں چیزوں کو حفظ کرنے کی جو روایت پائی جاتی ہے، اسی کے تسلسل میں نئے مضامین کا متعارف کیا جانا زیادہ سے زیادہ یہ کرے گا کہ طالب علم ان مضامین کے اسباق کو بھی رٹنے میں مصروف ہوجائیں گے۔

تعلیم کا مقصد اگر تنقیدی فکر (Critical thinking) کو پیدا کرنا ہے تو بدقسمتی سے یہ نہ تو مدارس کے موجودہ نصاب کے ذریعے ہو پا رہا ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی عمل دخل نئے مضامین کی تدریس میں ہو سکے گا۔ مزید برآں قرآن اور احادیث کے نا ظرہ مطالعہ اور ان کے حفظ کرنے کے حوالے سے دینی مدارس کے علاوہ ،جہاں یہ کام معمول کی تعلیم کا حصہ ہے، ملک کے دوسرے اداروں کو بھی اس کا پابند کر دیا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ اسکولوں اور کالجوں میں اس دینی خدمت کے لیے اساتذہ دستیاب نہیں ہیں، لہٰذا اس کا یہ راستہ نکالا گیا ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی۔

یہ حل کتنا قابلِ عمل ہے اور یہ کتنا نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، اس کے بارے میں مناسب غوروفکر نہیں کیا گیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک ایسی پیوند کاری کی کوشش کی گئی ہے جو مذکورہ اداروں کے طلبہ کو مذہب کی آفاقی اقدار سے قریب کرنے کے بجائے اس کی رسمیات اور ظواہر کا پابند بنانے پر منتج ہوگی۔

2021ء اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ہم اکیسویں صدی کے دو عشرے گذار چکے ہیں، لیکن نہ ہم قدرتی آفات اور وبائوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ قومی اہداف کی طرف بڑھنے کا کوئی سائنسی طریقہ ہمارے حاشیۂ خیال میں آتا ہے۔ 2022ء میں قدم رکھتے وقت بس کچھ موہوم سی امیدیں ہیں ، کہ دنیا امید پر قائم ہے، یوں شاید ہماری بھی کچھ امیدیں برآجائیں۔