وہ لاہور کہیں کھو گیا

January 16, 2022

(گزشتہ سے پیوستہ)

عزیز قارئین! ہم نےاپنے پچھلے کالم میں رابرٹس کلب کا کچھ ذکر کیا تھا۔ یقین کریں اگر اس رابرٹس کلب کی ایک سابق ایڈیشنل آئی جی توڑ پھوڑ نہ کرتے تو یہ اتنی خوبصورت اور شاندار جگہ تھی جس کو تاریخی ورثہ قرار دے کر ایک اہم سیاحتی مقام بنایا جاسکتا تھا، افسوس جس بھونڈے انداز میں اس تاریخی عمارت کو ایک بدشکل عمارت میں تبدیل کر دیا گیا وہ بیان سے باہر ہے۔ اب رابرٹس کلب کا ایک انتہائی خوبصورت ہال رہ گیا ہے جس کی چھت ڈیڑھ/ پونے دو سو برس کے بعد آج بھی اپنی اصل شکل میں ہے۔ دیار کی لکڑی کے بڑے بڑے بالے پنکھے اور خوبصورت شیڈ لٹکانے کے لیے آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم کوئی 45برس بعد اس ہال کو دیکھنے گئے اور بڑی دیر تک تصور کرتے رہے کہ کبھی اس خوبصورت ہال میں گورے ڈانس کرتے، تاش کھیلتے اور زبردست تقریبات کیا کرتے ہوں گے۔ کیا خوبصورت منظر ہوتاہوگا۔ باہر ٹینس کورٹ اور ارد گرد کھلا ماحول اس تاریخی جگہ کو محفوظ کرکے سیاحوں کے لیے ایک بہترین تفریحی اور معلوماتی جگہ بنائی جا سکتی تھی۔ مگر ہمارےلوگوں نے اس عمارت کا حلیہ ہی بگاڑ دیا، موجودہ ایڈیشنل آئی جی بی اے ناصر اور ایس ایس پی شائستہ ندیم نے اس تاریخی ہال کو لائبریری میں منتقل کردیا ہے اور ایک ایسی لائبریری جس میں 1881کا ریکارڈ جس کو ڈی ایس او یعنی DAILY SITUATION REPORT کہتے ہیں وہ انتہائی نفیس انداز میں خوبصورت لکڑی کی الماریوں میں قرینے سے رکھاہوا ہے۔ یعنی 1881سے آج تک کی پنجاب اور لاہور کی روزانہ کی صورت حال کی رپورٹیں رکھی ہوئی ہیں جس کے لیے ہم یقیناً بی اے ناصر ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ ( پرانا نام سی آئی ڈی) کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ ہم نے جس زمانے میں رابرٹس کلب کے اس تاریخی ہال کو دیکھاتھا ہمیں یاد ہے کہ وہ لال رنگ اورسیمنٹ کے رنگ کا فرش ہوتا تھا۔ لال رنگ کا فرش بہت چمک دار ہوتا تھا اور دیکھنے سےتعلق رکھتا تھا۔گوروں نے اپنی ایلیٹ کلاس کے ساتھ ساتھ اپنے چھوڑے ملازمین کے لیے بھی لاہور میں کلب بنائے تھے۔ تاریخ میں ہے کہ جہاں آج انار کلی کا مقبرہ ہے جسے دفتر لاٹ صاحب (موجودہ سیکرٹریٹ) کہتے ہیں۔ یہاں کبھی جنگل تھا اور حضرت میاں میرؒ اس جنگل میں آ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ گورنمنٹ کالج کا شعبہ ہائی ٹینشن لیبارٹری رابرٹس کلب کے ساتھ 1954 میں قائم کی گئی تھی۔ رابرٹس کلب کےاندر کاش وہ فرنیچر بھی محفوظ ہوتا جو گوروں کے دور کا تھا۔ یقیناً جب اس کی کئی پرانی عمارتقں کو توڑا گیا ہوگا تو اس وقت کئی یادگار اور خوبصورت چیزیں لوگ لے اڑے ہوں گے۔ پتہ نہیں ہماری قوم کو تاریخی عمارتوں سے کیوں لگائو نہیں،وہ ہر تاریخی عمارت اور یادگار کو تباہ کیوں کردیتے ہیں۔

رابرٹس کلب میں لکڑی کے روشن دان اور کھڑکیاں آج بھی قابل دید ہیں۔ کاش حکومت اس تاریخی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لیے فنڈز دے دے اور اس عمارت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا جائے۔ اس کا موجودہ فرش پرانا ضرور لگتا ہے لیکن اس دور کا نہیں کبھی اس ہال میں بجلی کے پرانے کالے، سفید چینی اور پیتل کے بنے ہوئے سوئچ ہم نے دیکھے تھے۔ سفید چینی اور پیتل کے یہ سوئچ آج بھی ایچیسن کالج کی پرنسپل کی رہائش گاہ میں لگے ہوئے ہیں۔ پیتل کے یہ سوئچ انتہائی خوبصورت اور دیر پا ہوتے تھے اور پھر ہر کمرے میں علیحدہ فیوز لگا ہوتا تھا۔ جو کسی کو کرنٹ لگنے اور ارتھ کی صورت میں فیوز ہو جاتا تھا اور صرف اس کمرے کی لائٹ بند ہوتی تھی۔پھر بیکو لائٹ کے کالے رنگ کے سوئچ آگئے۔ کبھی آپ کو بتائیں گے لاہور میں بجلی کی ڈی سی کرنٹ کی وائرنگ کیسے کی جاتی تھی۔ اب تو اے سی بجلی آگئی ہے۔

رابرٹس کلب کے باہر جو خوبصورت توپ رکھی ہوئی ہے یہ توپ 1850 میں تیار کی گئی تھی۔ یہ 93 ایم ایم کیلبر کی فرنٹ لوڈنگ توپ مہاراجہ پٹیالہ بھوپندر سنگھ کی ملکیت تھی جو انہوں نے 1903 میں پنجاب حکومت کو دے دی تھی۔ 2005میں اے ڈی ڈی ایل آئی جی پی اسپیشل برانچ پنجاب کی ہدایت پر اسے ٹھیک ٹھاک کرکے یہاں رکھا گیا۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو تاریخ، تاریخی عمارتوں اور تہذیبی ورثہ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس رابرٹس کلب میں ایک ایسا تاریخی درخت ہے جو 1792 کا ہے۔ اس شکل و صورت کا درخت پورے لاہور میں کہیں نہیں، اب اس کی جڑیں پھر زمین میں آ رہی ہیں جنہیں ہمارے خیال میں بالکل نہیں کاٹنا چاہئے، اس تاریخی درخت کو محفوظ کیا جائے اس پر رات کو لائٹنگ کی جائے اور مخصوص دنوں پر اس توپ اور درخت پر ٹکٹ لگاکر لوگوں کو دکھایا جائے۔ لیکن بڑے محدود پیمانے پر، کیونکہ یہ آفس ا سپیشل برانچ کا ہے، یہاں عام لوگوں کا آنا جانا مناسب نہیں۔ یا پھر اس تاریخی درخت، ربراٹس کلب اور توپ کی تصاویر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو دکھائی جائیں۔

ریسرچ کرنے والوں کے لیے یقیناً 1881اور قیام پاکستان تک کی رپورٹیں بہت معلومات فراہم کرسکتی ہیں مگر شاید اب لوگوں کو ان رپورٹوں میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔ کاش کوئی ریسرچ کرے اور ان معلومات کو اردو زبان میں منتقل کرئے۔ (جاری ہے)