کچھ علوم بے حد دلچسپ ہیں ۔ کبھی آپ توانائی کی ایک قسم کو دوسری قسم میں تبدیل کر کے ایک مشین کو حرکت دیتے ہوئے دیکھیں ۔پھر اس حرکت کرتی ہوئی مشین کی قوت کو انسان جب اپنے کاموں میں استعمال کرتا ہے تو کرشمے رونما ہونے لگتے ہیں ۔ یہ مکینیکل انجینرنگ میں آتا ہے ۔
زمانوں تک انسان ہر وزن اپنی پیٹھ پر لادتا رہا۔ پھر اس نے نوٹ کیا کہ جانور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی صلاحیت نہیں رکھتے ؛چنانچہ کیوں نہ ان پر کاٹھی ڈالی جائے ۔ ابتدائی زمانوں کے انسان کو اتفاقاًزمین کے مختلف حصوں سے مٹی کے نیچے دبی ہوئی قیمتی اشیا ملیں ۔اسے اندازہ ہوا کہ زمین کے نیچے بہت کچھ موجود ہے ۔ جانور تو مختلف چیزوں کو اسی نظر سے دیکھتے اور سونگھتے تھے کہ انہیں کھایا جا سکتاہے یا نہیں۔ وہ لڑائی کے لئے اپنے دانت ،ناخن اور سینگ ہی استعمال کر سکتے تھے ۔ ادھر دوسری طرف انسان اوزار بنانے لگا۔ وہ لوہے اور پتھر کو دشمن کے سر میں مار کے اس کا خاتمہ کر سکتا تھا۔ اس نے شاخوں اور پتھروں کو نوکدار بنایا اور شکار میں استعمال کیا۔
لاکھوں سال تک آدمی کرہ ء ارض پہ موجود مختلف فائدے مند چیزوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔تین لاکھ سال سے وہ اس کوشش میں جتا ہے ۔ وہ دھاتوں‘ بالخصوص لوہے کودشمن سے لڑنے‘ وزن اٹھانے اور زیادہ قوت والے کاموں میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے آگ میں موجود حرارت کی طاقت کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس نے زمین کی کھدائی جاری رکھی۔ اسے معلوم ہوا کہ اگر پچا س سے سو فٹ کی گہرائی پر پانی موجود ہے‘ تو دو ہزار فٹ کی گہرائی تک اترنے پر ایک کالا سیال مادہ نکلتاہے‘ جسے ہم تیل کہتے ہیں۔ اس تیل کو جلا کر توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ انسان نے زیر زمین پانی تک کھدائی کی‘ پھر ایک بیل کو گول دائرے میں گھما کر یہ پانی نکالنا شروع کیا۔
انسان نے پہیہ ایجادکیا۔ انجن ایجاد کیا۔ تیل کو اس انجن میں جلا کر توانائی پیدا کی۔ انجن کے نیچے پہیے لگائے۔پہیے میں ربڑ کی ٹیوب میں ہوا بھر کر رگڑکم کی ۔ یوں اس نے بہت بڑے فاصلے تیز رفتاری سے طے کرنا شروع کیے۔ ٹرین بنائی گئی‘ جس میں کوئلہ جلا کر بھاپ کی توانائی سے انجن دوڑایا جاتا۔ لوہے کے پہیوں کے نیچے پٹڑی بھی لوہے کی تھی اور یوں رگڑ کم از کم تھی ۔ عظیم الشان وزن لوہے کے ان گنت پہیے اٹھائے ہوئے تھے ۔
انسان کو یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ توانائی کی مدد سے فاصلہ طے کیا جا سکتاہے‘ اس سے روشنی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سے اپنے گھر گرم کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے سردی سے بچا جا سکتاہے۔ بجلی ایجاد کی جا چکی تھی۔ بجلی سے چلنے والے آلات بھی ۔ انسان کی زندگی سہل ہوتی چلی جا رہی تھی۔
انسان نے توانائی کی مختلف قسموں کو سمجھا۔ ایک قسم کو دوسری میں بدلنے کا گر سیکھا۔ پانی سے چرخیاں گھمائیں اور بجلی پیدا کی۔ ہوا سے بجلی پیدا کی۔ اس بجلی اور توانائی کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لیے اچھے موصل‘ تاریں بنائیں۔ اس سب کا حاصل یہ تھا کہ ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ جلد از جلد پہنچنے کے قابل ہو گئے۔ ہمارے گھر رات کو بھی روشن اور گرم رہنے لگے ۔
انسان لوہے ، تیل‘ گیس اور کوئلے کو استعمال کرتے ہوئے بڑے کارنامے سرانجام دے چکا ہے ۔ وہ ہوا میں اڑنا سیکھ چکا ہے۔یہ اس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ کئی دفعہ تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ سب ہو چکا ہے۔توانائی کی ایک قسم کو دوسری میں تبدیل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہوا سے بھری ہوئی خالی بوتل پانی میں کیوں نہیں ڈوبتی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی کششِ ثقل پانی اور ہوا پر مختلف طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان اس کا فائدہ اٹھا سکتاہے۔ اس پرغو ر کرتے ہوئے انسان نے آبدوز ایجاد کی۔ زیرِ زمین تیرتا ہوا لوہے کا شہر، جس سے میزائل بندھے ہیں ۔ دشمن کو اس کی خبر تب ہوتی ہے ، جب تباہی اس پہ نازل ہو چکتی ہے ۔ فطرت میں پائی جانے والی ان چیزوں کو سمجھ کر ہم نے بے حد فائدہ اٹھایا۔ جیسا کہ انسان لہروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی تصویر اور آواز ایک لمحے میں ہزاروں کلومیٹردور پہنچا دیتا ہے ۔
زمین کی فضا میں یہ لہریں ، مٹی کے نیچے یہ تیل‘ گیس‘ کوئلہ اور لوہا رکھنے والی ہستی کون تھی ؟ فرض کریں کہ ہم زمین کھودتے ، نیچے کوئی پانی ، تیل او ر لوہا موجود نہ ہوتا تو کیسے ترقی کرتے ہم ؟ انسانوں کو ان اشیا کے استعمال کا شعور عطا کرنے والی ہستی کون تھی، جنہیں دوسرے جانور کھانے کے قابل نہ جان کر نظر انداز کر دیتے ؟آج مغرب کے پاس اڑنے‘ تیرنے اور کمیونی کیشن کرنے والے ذرائع ہم سے بہتر ہیں۔ وہ زمین کے ایک ایک چپے کا جائزہ خلاء سے لے رہے ہیں۔ وہ ہم میں سے ہر ایک کا نام جانتے ہیں‘ انہیں ہمارے والدین اور ہمارے بچوں کے نام معلوم ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ زمین کے کس حصے کے نیچے کس طرح کی معدنیات موجود ہیں۔ وہ یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ جسم کے ناکارہ ہوجانے والے اعضا دوبارہ اگائے جا سکیں۔
صورتِ حال ایسی ہے اور منصوبے ایسے ہیں کہ مسلمان بظاہر ہمیشہ کی پسماندگی اور ذلت کا شکار ہو چکے؛البتہ حالات بدل سکتے ہیں۔ا سکرپٹ میں یہ لکھا ہے کہ ایک بہت بڑا منصوبہ ساز سامنے آئے گا۔ وہ دنیا بھر میں موجود مسلمان دماغوں کو اکٹھا کرے گا۔ سرمایہ داروں کو اکٹھا کرے گا۔ذلت میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں کے سامنے ایک منصوبہ رکھے گا۔انفرادی طور پر مسلمانوں میں ایک سے ایک دماغ موجود ہے ۔ ہر طرح کا کاروباری طبقہ، سرمایہ دار، سائنسدان ، ڈاکٹر، انجینئر مگر ان سب کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ۔ رابطہ قائم کرنے والا آئے گا۔ یہ تقدیر کا لکھا ہے ، جو ٹل نہیں سکتا۔