کرپٹو کرنسی: پاکستانیوں سے 18 ارب کا فراڈ

January 17, 2022

گزشتہ دنوں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے پاکستانیوں سے 100 ملین ڈالرز یعنی تقریباً 18 ارب روپے کے کرپٹو کرنسی میں آن لائن فراڈ کرنے پر عالمی ایکسچینج بائینانس کو نوٹس جاری کئے ہیں۔

واضح رہے کہ بائینانس دنیا میں سب سے بڑا غیر منظم ورچوئل کرنسی ایکسچینج ہے جہاں پاکستانیوں نے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور اس فراڈ کے سلسلے میں ایف آئی اے نے پاکستان میں بائینانس کے نمائندے کو تفتیش کیلئے طلب کیا ہے۔

ایف آئی اے کے مطابق کرپٹو کرنسی سے دہشت گرد کیلئے فنانسنگ اور منی لانڈرنگ بھی ہورہی تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان میں 11موبائل ایپس جن سے ہزاروں پاکستانی آن لائن رجسٹرڈ تھے، دسمبر میں اچانک بند ہوگئیں۔

ایف آئی اے کو بائینانس کی 26 مشتبہ اور گمنام مالکان کی بلاک چین ملی جن پر پاکستانیوں کی رقوم ٹرانسفر ہوئی تھیں اور جن کے ذریعے پاکستانیوں نے بٹ کوائن، ایتھرم اور ڈوج کوائن میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔ ہر ایپلی کیشن پر 5سے 30ہزار صارفین تھے جنہوں نے 100سے 80 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔

ان ایپلی کیشنز کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس بزنس میں نئے کسٹمرز لانے پر بھاری منافع کا لالچ دیا جاتا تھا۔ خرید و فروخت کیلئے کرنسی یعنی ادائیگی کا نظام انسانی تاریخ جتنا قدیم ہے۔ پہلے اشیاء کے بدلے اشیاء دی جاتی تھیں جسے بارٹر سسٹم کہتے تھے، پھر خرید و فروخت کی ادائیگی کیلئے سونے اور چاندی کو اپنایا گیا.

اس میں سیکورٹی مسائل کی وجہ سے بینکنگ نظام وجود میں آیا جس کے تحت کرنسی کے پیچھے اتنا ہی سونا گارنٹی کے طور محفوظ رکھا جاتا تھا۔

1971ء میں امریکہ نے ڈالر کے بدلے مساوی سونا رکھنے کی شرط ختم کردی اور پیپر کرنسی متعارف کرائی گئی جس کے پیچھے اب مرکزی بینک میں حقیقتاً سونا نہیں بلکہ حکومتی ضمانت ہوتی ہے اور زیادہ تر بینک اپنے زرمبادلہ کے ذخائر ڈالر، یورو اور چینی کرنسی میں رکھتے ہیں۔

بعد ازاں ذاتی سہولت اور سیکورٹی کے پیش نظر پلاسٹک منی یعنی کریڈٹ کارڈز متعارف کرائے گئے جن سے خرید و فروخت کی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی ای کامرس اور آن لائن پیمنٹ کا نظام بھی تیزی سے فروغ پایا۔

گزشتہ دہائی میں کرپٹو ڈیجیٹل ورچوئل کرنسی متعارف کرائی گئی جس پر آج ہم گفتگو کررہے ہیں۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریزکی تحقیق کے مطابق پاکستانیوں کے پاس اس وقت 20ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق کرپٹو کرنسی کی لیگل پروٹیکشن نہیں۔

واضح رہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس قوانین کے مطابق کمرشل بینک رقوم بھیجنے اور وصول کرنے کی تفصیلات اور رقم بھیجنے کے مقاصد پوچھنے کا مجاز ہے جبکہ مرکزی بینک تمام بڑی رقوم کی ٹرانزیکشن کی مانیٹرنگ کا پابند ہے اور شکوک و شبہات کی بنیاد پر مالی ٹرانزیکشن روک لی جاتی ہے۔

اِنہی وجوہات کے پیش نظر 3جنوری 2009ء کو دنیا کی پہلی ڈیجیٹل الیکٹرونک کرنسی ’’بٹ کوائن‘‘ متعارف کرائی گئی جس میں بینکوں کی مداخلت نہیں ہوتی۔

کرپٹو کرنسی کے بارے میں کم اور نرم قانون سازی کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر نے اس کرنسی کو اپنے مقاصد کیلئے اپنایا اور کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق اب کرپٹو کرنسی کے 30لاکھ مرچنٹ اور مارکیٹ ویلیو 700ارب ڈالر ہوچکی ہے۔

قارئین!11دسمبر 2017ء اور19فروری 2018ء کو میں نے ڈیجیٹل کرنسی بٹ کوائن پر لکھے گئے اپنے کالمز میں بٹ کوائن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر خدشات کا اظہار کیا تھا۔

فروری 2011ء میں بٹ کوائن کی اصل قیمت ایک ڈالر تھی جو دسمبر 2017ء میں بڑھ کر 20ہزار ڈالرز کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے لوگ تیزی سے بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کرنے لگے جبکہ میرے نزدیک یہ سٹہ تھا۔

2فروری 2018ء کو میرے خدشات درست ثابت ہوئے اور بٹ کوائن کی قیمت گرکر 7614ڈالر تک پہنچ گئی اور سرمایہ کاروں کی آدھی سے زیادہ رقم ڈوب گئی۔ آج سٹے باز اس کی قیمت پھر40ہزار ڈالر پر لے گئے ہیں۔

ان وجوہات کی بناء پر یو اے ای کے مرکزی بینک، بینک آف انگلینڈ، جرمنی کے ونڈس بینک، بینک آف کینیڈا، بینک آف جاپان، پیپلز بینک آف چائنا، ریزروبینک آف انڈیا اور روس کے مرکزی بینک کے سربراہوں نے بٹ کوائن کے پھیلائو پر تشویش کا اظہار کیا کہ یہ ڈیجیٹل کرنسی جس کی نہ کوئی سرحد ہے اور نہ یہ بینکوں کے قوانین کی پابند ہے.

منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کیلئے استعمال ہونے اور بینکوں کے ڈپازٹس میں کمی کا باعث بن سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اگست 2021ء میں کیوبا اور چین نے کرپٹو کرنسی کی ٹرانزیکشن کو قانونی قرار دے دیا اور چین کرپٹو کرنسی کی سب سے بڑی مارکیٹ بن گیا۔ بھارت نے بھی کرپٹو کرنسی پر پابندیاں نرم کردیں، اس حوالے سے بھارت میں قانون سازی کی جارہی ہے جبکہ برطانیہ اپنی ڈیجیٹل کرنسیوں کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کررہا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بینک کی کمیٹی نے پاکستان میں ورچوئل کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت کو سٹہ بازی اور غیر قانونی قرار دیا ہے اور اسے غیر قانونی فنڈز کی منتقلی کا رسک قرار دیتے ہوئے پابندی لگانے کی سفارش کی ہے۔

ہم جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ڈیجیٹل کرنسی کے وجود سے آنکھیں بند نہیں رکھ سکتے۔

اسٹیٹ بینک کو چاہئے کہ وہ جلد کرپٹو کرنسی کے حوالے سے موثر قوانین مرتب کرے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنائے، نہیں تو پرکشش منافع کے لالچ میں پاکستانی سرمایہ کاروں کے اربوں روپے اِسی طرح ڈوبتے رہیں گے جس کی ملکی معیشت متحمل نہیں ہوسکتی۔