بس اتنی سی خواہش ہے

January 19, 2022

کورے کاغذ کو گھورتے رہنا نہایت تکلیف دہ کام ہے۔ خاص طور پر جب لکھنے کو دل ہی نہ کر رہاہو۔ بندہ لکھے بھی تو کیا لکھے۔ وہی خبریں اور اُن پر وہی ماتم۔ بہاولپور میں ٹریکٹر ٹرالی نے موٹر سائیکل رکشے کو ٹکر ماردی، چار بچے جاں بحق۔ اسلام آباد میں دس برس کی بچی کا ریپ، قتل کرکے لاش میٹرو اسٹیشن کے واش روم میں پھینک دی۔ اگر آپ گوگل پر ’پاکستان، ریپ، کرائم، مرڈر، ایکسیڈنٹ، ‘ لکھ کر تلاش کا بٹن دبائیں تو بلا مبالغہ سینکڑوں خبریں سامنے کھل جائیں گی۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک۔ شاید یہ کسی ملک کے حالات کا اندازہ لگانے کا درست طریقہ نہیں کیونکہ اِس سے بالکل یک طرفہ تصویر سامنے آتی ہے۔ اور یہ بات بھی درست ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے ضمن میں بھی اگر آپ اسی طرح خبریں تلاش کریں گے تو وہاں بھی آپ کو خوفناک جرائم کی طویل فہرست مل جائے گی۔ لیکن اِس کے باوجود ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہونے والے جرائم اور ہمارے ہاں ہونے والے جرائم کی نوعیت، اُن کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد اور ریاست اور عوام کا اِن جرائم کے حوالے سے رد عمل بالکل مختلف ہے۔ڈیڑھ سال پہلے امریکہ میں جس پولیس افسرنے سیاہ فام شخص جارج فلائڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کراسےقتل کیا تھا، اُس افسر کو ریاست ساڑھے بائیس سال قید کی سزا سنا چکی ہے اور وہ جیل میں ہے۔ دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ تین سال پہلے آج ہی کے دن 19جنوری کو ساہیوال میں پولیس نے ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کرکے میاں، بیوی، تیرہ سال کی بچی اور اُن کے ہمسائے کو، جو گاڑی میں اُن کے ساتھ تھا، قتل کر دیا۔ آج تک کسی ایک مجرم کو سزا نہیں ہوئی۔ بس یہی فرق ہے۔

اِس ملک میں رہنے والے ایک عام شہری کی خواہشات کیا ہیں ؟ جب کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باہر نکلے تو اسے یہ خوف نہ ہو کہ اسے محض کسی شبے میں خاندان سمیت گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔ جب کوئی بندہ اپنی فیملی کے ساتھ چھٹیاں منانے جائے تو اسے یہ اطمینان ہو کہ کسی نا گہانی آفت کے نتیجے میں سرکاری ادارے اُس کی مدد کو پہنچ جائیں گے او ر وہ اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں دم گھٹنے سے نہیں مر جائے گا۔ جب کوئی بچی گھر سے باہر نکلے تو اُس کے والدین کو یہ خوف نہ ہو کہ کوئی درندہ اُس کا ریپ کرکے لاش کو کوڑے کے ڈرم میں پھینک دے گا۔ جب کسی ماں کالعل اسکول جائے تو اُس کی ماں کو اپنے بچے کی صحیح سلامت واپسی کی دعائیں نہ مانگنی پڑیں۔کسی کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے خود پر تیل چھڑک کر آگ نہ لگانی پڑے۔ بے گناہ قتل ہونے والے بچے کے لواحقین کو لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج نہ کرنا پڑے کہ اِس کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔ اسکول جانے والے بچے بچیوں کو کوئی ٹریکٹر ٹرالی روند نہ ڈالےیا کسی اسکول کی چھت گرنے سے وہاں بچے نہ مر جائیں۔اِس ملک میں روزانہ آٹھ سے دس افراد ریل گاڑی کے نیچے آ کر ہلاک نہ ہوں۔ بنیادی حقوق کے حصول کے لیے لوگوں کو سالہاسال سرکاری دفتروں، کچہریوں اور عدالتوں میں ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑے۔اِس ملک میں کوئی بچہ کوڑے دان سے کھانا تلاش کرتا ہوا نظر نہ آئے۔بس اتنی سی خواہش ہے۔

لیکن یہ خواہشات کیسے پوری ہوں؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مسائل کی نشاندہی کرنا بہت آسان ہے، اصل کام اِن مسائل کا حل بتانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اِن مسائل کا کوئی آسان حل نہیں۔ کسی کے پاس کوئی ایسی گیدڑ سنگھی نہیں جس کی مدد سے یہ تمام مسائل راتوں رات حل ہو جائیں۔ لیکن کیا کریں، ہمیں وہی حل پسند آتا ہے جو ہم ’نایک‘ جیسی فلموں میں دیکھتے ہیں جس میں ایک دن کا وزیر اعلیٰ تمام مسائل چوبیس گھنٹوں میں حل کر دیتا ہے۔اصولاً مجھے بھی اسی قسم کے حل بتا کر آپ سے داد سمیٹ لینی چاہیے۔ مثلاً حکومت یہ قانون پاس کر دے کہ آج سے عدالت میں ہر مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ میں سنا دیا جائے گا اور جو شخص جھوٹا مقدمہ کرے گا اس پر بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا، اِس سے تمام مقدمے بازی ایک سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گی۔حکومت اوورا سپیڈنگ پر مکمل پابندی لگا دے اور جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا جائے اُس کی گاڑی بند کر دی جائے گی، اِس سے حادثات میں پچاس فیصد کمی ہو جائے گی۔حکومت تمام سرکاری عمارات خاص طور سے اسکولوں کا معائنہ کرے اور جو عمارت ناگفتہ بہ حالت میں نظر آئے اسے فوری طور پر خالی کرنے کا حکم دے، اِس سے لوگوں کی جانیں محفوظ ہو جائیں گی۔حکومت ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی اور مفت قرار دے، کوئی بھی بچہ اسکول سے باہر نظر آئے تو اس کے والدین کو جیل بھیج دیا جائے، اِس سے بچوں سے بھیک منگوانے کے جرم کا بھی خاتمہ ہوگا اور ہماری خواندگی کی شرح بھی بڑھ جائے گی اور چند ہی سال میں ہم دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شامل ہوجائیں گے۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اِن میں سے زیادہ تر قوانین ملک میں پہلے سے موجود ہیں۔ آئین میں تعلیم کا بنیادی حق لکھا ہے، اقلیتوں کے حقوق بھی واضح ہیں، اوورا سپیڈنگ کی بھی ممانعت ہے، کسی کا ریپ کرنے کی بھی اجازت نہیں اور ماتحت عدالتوں سے بھی ماہانہ کی بنیاد پر باز پرس کی جاتی ہے کہ انہوں نے کتنے مقدمات نمٹائے اور کتنے مقدمات میں تاخیر ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب قوانین پہلے سےموجود ہیں تو پھر مسائل حل کیوں نہیں ہوتے ؟ اِس کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ مسائل کے حل کے لیے قوانین کا ہونا کافی نہیں بلکہ قوانین پر عمل کروانا ضروری ہوتا ہے۔ قوانین پر عمل کیوں نہیں ہوتا، یہ دوسرا سوال ہے۔ اِس کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ قوانین پر عمل کروانے کے راستے پر ہم گامزن ہی نہیں، ہم نے کوئی دوسرا راستہ پکڑ رکھا ہے جو جنگل کے قانون کی طرف نکلتاہے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ جنگل کے راستے پر چلنے کی بجائے صراط مستقیم پر کیسے چلا جائے ؟ یہ ٹیڑھا سوال ہے جس کا مختصر جواب ممکن نہیں۔ لہٰذا اِس کا جواب پھر کبھی۔