کراچی کو بچائیں،ممنون حسین آگے آئیں

September 02, 2013

کراچی جل رہا ہے، کیا کراچی جلتا رہے گا۔ ایک زمانے میں فیض احمد فیض صاحب کے کلام کی روشنی میں”بیروت جل رہا ہے“ کا دکھ پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا تھا، پھر بغداد دنیا بھر میں دہشتگردی اور بم دھماکوں کا مرکز تھا۔ اب بدقسمتی سے ہمارے سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی مہربانی سے روشنیوں کا شہر کراچی بھی ایسے ہی جلتا نظر آرہا ہے جیسے کبھی بیروت ہوتا تھا۔ قائد اعظم جس طرح کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے تھے اس شہ رگ کو کاٹنے کے لئے بھارت امن اور دوستی کے نام پر کچھ بین الاقوامی اور داخلی طور پر کیا کچھ نہیں کررہا،یہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ اس طرح ”سی آئی اے“ یا” موساد “ہو یا ”را“ غرض امریکہ، روس، بھارت سب پاکستان کی معاشی شہ رگ کو کاٹنے کے لئے ہر طرح کے جتن کررہے ہیں ۔
یہ کام جنرل ضیاء الحق کے دور سے شروع ہوا، اس دور میں بھی کراچی میں اردو اور پشتو بولنے والے اکثریت میں رہتے تھے۔ وہاں پنجاب اور دوسرے صوبوں کی اکثریت روزگار کماتی تھی اور کراچی عملاً پورے ملک کی اکثریت کو ”روٹی“ فراہم کرتا تھا۔ کراچی25-20سال پہلے واقعی روشنیوں کا شہر تھا جو اب اندھیروں ،قتل و غارت، خوف و دہشتگردی کا مرکز نظر آرہا ہے۔ کراچی ایک شہر نہیں، ایک ملک ہے جو پاکستان کا معاشی مرکز بھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی الگ سے پہچان بھی ہے۔ دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سفارتی حکام کی پہلی ترجیح کراچی میں بزنس ، مالیات اور پروفیشنل ماحول کے حوالے سے سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ لاہور اور دوسرے مقامات کا سوچتے ہیں۔ کراچی کی اپنی کاروباری روایات اور اصول ہیں۔ دوسرے صوبوں میں لین دین کے حوالے سے معاملات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے کراچی کے ہیں، اس لئے حکومت کو کسی کے خوف یا دباؤ کی پروا کئے بغیر کراچی میں معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے وہی ماحول پیدا کرنے اور عوام کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے جس سے1970ء کی دہائی والا کراچی کا ماحول واپس آجائے۔ اس وقت اگر مختلف بین الاقوامی طاقتیں اپنے کسی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ ایجنڈے کی بنیاد پر کراچی کے حالات خراب کررہی ہیں یا کرارہی ہیں تو اس سے عملًا پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر حرف آرہا ہے اس لئے کہ اگر ہماری معاشی شہ رگ کٹ گئی یا اسے کوئی بڑا نقصان پہنچتا ہے تو اس سے پورے پاکستان کا معاشی اور سماجی نظام متاثر ہوگا جس سے پورے ملک میں امن و امان کے حالات خراب اور انتہا پسندی ، دہشتگردی میں اضافہ ہوگا۔
دوسری طرف غیر ملکی کمپنیاں اور سرمایہ کار ٹریول ایڈوائزری کو مزید سخت کردیں گے۔ اس سے جب غیر ملکی سرمایہ کار ہی پاکستان نہیں آئیں گے تو یہاں کاروبار اور معیشت آگے کیسے بڑھے گی۔ اس وقت اتفاق سے مسلم لیگ(ن)کی حکومت نے کراچی کے ایک پرانے اور سینئر بزنس مین ممنون حسین کو پانچ سال کے لئے صدر منتخب کرایا ہے جو چند روز بعد اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ انہیں قدرت نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ کراچی کے پرانے باسی ہوتے ہوئے وہاں کی بزنس کمیونٹی کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مختلف اقلیتوں کے افراد سے مشاور ت کریں اور انہیں ہر طرح کے تحفظ کی فراہمی کے لئے وزیر اعظم کی تجاویز دیں۔ اس سے کراچی میں اگر فوری طور پر”بھتہ“ وصولی کی حوصلہ شکنی کردی جائے تو اس سے لاتعداد مسائل حل ہونے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے ۔نو منتخب صدر ممنون حسین کو یہ ٹاسک پہلے ہی دن سے اپنے ذمہ لینا ہوگا۔ اس لئے کہ اگر مسلم لیگی صدر کے ہوتے ہوئے کراچی کے حالات میں بہتری نہ ہوئی تو اس سے ان کی پوری حکومت”کسی بڑھے دباؤ“ کی زد میں آکرمقررہ مدت سے پہلے کئی مشکلات سے دو چار ہوسکتی ہے جب کے یہی عدلیہ اور فوج ایک ہی سوچ کے تحت معاملات کو دیکھنا شروع کرسکتے ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو، کراچی میں امن اور جمہوریت رہنی چاہئے ورنہ پورے ملک میں جمہوریت کے لئے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم نواز شریف ملکی سلامتی کے حوالے سے اپنے وزراء کو ہدایات دیں کہ اب بڑے بڑے بیانات اور دعوے کرنے کی بجائے داخلی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں بھی کراچی کے حالات پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیں۔ آنے والے چند ماہ میں ایسے لگ رہا ہے کہ بیرون سے زیادہ ہمارے داخلی مسائل کئی وجوہ کی بنا پر بڑھ سکتے ہیں جس سے فائدہ پاکستان دشمن عناصر کو ہوسکتا ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی کا سفر جو موجودہ دور حکومت میں کچھ صحیح سمت میں چلتا ہوا نظر آرہا ہے وہ ذرا سی غفلت سے ڈی ٹریک ہوسکتا ہے۔ اس لئے کراچی تو بیروت نہیں، امن کا گہوارہ بنانے کے لئے تمام قوتیں مل کر کام کریں اس سے پورے ملک کا معاشی نظام چلے گا اور امن و سکون کی راہ ہموار ہوگی۔