Absolutely Not

April 01, 2022

خیال یہ تھا کہ خان صاحب کی حکومت کو اگر کوئی گراناچاہتا ہے تو وہ مہنگائی کے ستائے عوام ہیں، لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا، پتا یہ چلا ہے کہ ’نادیدہ ہاتھ‘ موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں، یہ بات خان صاحب نے خود ہمیں بتائی ہے۔(اس سے ایک اور غلط فہمی کا بھی اِزالہ ہو گیا کیوں کہ آج تک عمومی تاثر یہی تھا کہ قضا و قدر کے جملہ مخفی کارکنان عمران خان کے اقتدار کے محافظ ہیں)۔

جب سے خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تھی انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف کسی بیرونی سازش کا تذکرہ شروع کر دیا تھا، شروع میں تو وہ کچھ اشاروں سے کام چلاتے رہے.

لیکن بتدریج ان کے اس الزام میں تسلسل آتا چلا گیا، اور پھر ایک جلسہ عام(امر بالمعروف) میں انہوں نے کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرا کر اس بین الاقوامی سازش کا پردہ چاک کر دیا جو ان کی بے باک قیادت کے خلاف کی جا رہی ہے۔انہوں نے یہ دھمکی آمیز خط نہ تو پڑھ کر سنایا نہ ہی مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کی شناخت سے پردہ اٹھایا۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ خان صاحب کے بہ قول ان کی حکومت کو کون نکالنا چاہتا ہے اور کیوں نکالنا چاہتا ہے۔ مختصراً یہ دستانہ پوش خفیہ ہاتھ امریکا اور مغرب کے ہیں، جو خان صاحب سے اس لیے ناراض ہیں کیوں کہ انہوں نے امریکا کو Absolutely Not کہہ کر اڈے دینے سے انکار کیا، روس کا دورہ کیا، یورپی یونین کے خط میں درج ہدایات پر نہ صرف یہ کہ عمل نہیں کیا بلکہ کھلے عام اس پر تنقید کی، اور عالم اسلام کو اکٹھا کرنے کی سعی کی۔

اس ضمن میں انہوں نے خود کو بھٹو صاحب سے تشبیہ بھی دی، یعنی جس قومی خودداری کے باعث بھٹو صاحب کی حکومت ختم کر کے انہیں ’ مثالِ عبرت‘ بنا دیا گیا تھا، میرا بھی وہی گناہ ہے اور میرے خلاف بھی ہو بہو ویسی ہی سازش کی جا رہی ہے۔ یہ ہے وہ جلد بازی میں ترتیب دیا گیا بیانیہ جس کی بنیاد پر عمران خان اپنی آئندہ کی سیاست استوار کرنا چاہ رہے ہیں۔

ویسے تو سنجیدگی سے اس ’خط‘ پر گفتگو کرنا بذاتِ خودایک غیر سنجیدہ رویہ قرار دیا جا سکتا ہے، مگر کیوں کہ اس معاملے کا تعلق قومی سلامتی سے بتایا جا رہا ہے، اس لیے بہر حال ہمیں اس پر بات کرنا ہو گی۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ انسانی تاریخ و نفسیات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ گالی اور دھمکی لکھ کر نہیں دی جاتی (گالیوں والی بات کی تصدیق شہباز گِل صاحب سے بھی کروائی جا سکتی ہے) اور بھٹو صاحب کو کسی نے پرچی پر لکھ کر نہیں دیا تھا کہ تم اگر فرانس سے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ لو گے تو ہم تمہیں عبرت کی مثال بنا دیں گے، نہ ہی نواز شریف کو خط لکھ کر دھمکی دی گئی تھی کہ یمن فوج نہ بھیجنے کے جرم میں تمہاری حکومت ختم کر دی جائے گی، ایسی دھمکیاں زبانی کلامی، وہ بھی ملفوف انداز میں دی جاتی ہیں، یعنی ’نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے‘ یا ’اس سے ہمارے تعلقات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

پھر خان صاحب نے جو ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھاوہ کس کے جواب میں کہا تھا، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کہتے ہیں کہ ہم سے تو کسی نے اڈے مانگے ہی نہیں، اور سعودی عرب سے زکوٰۃ کے چاول لینے والی حکومت اگر عالمِ اسلام کی سیادت سنبھالنا چاہتی ہے تو اس پر کیا کہا جائے، اور روس کے دورے میں تو ایک معاہدے پر بھی دستخط نہ ہو سکے، نہ حربی نہ معاشی، پھر کوئی کیوں اس قدر برافروختہ ہو کہ ہماری حکومت کے خلاف ہی سازش شروع کر دے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ’روسی بلاک‘ کو مرحوم ہوئے دہائیاں بیت گئیں اور آج اس نام کی کوئی منڈلی کرہ ارض پر نہیں پائی جاتی۔خطے میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی جس میں خان حکومت امریکا مخالف کیمپ میں شامل ہو، پاکستان پر آج دہشت گردی برآمد کرنے کا کوئی الزام نہیں ہے، تو پھر آخر خان صاحب کا گناہ کیا ہے؟

خان صاحب نے تو مغرب کی محبت میں وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے، چینی حکام کہتے ہیں کہ اس حکومت نے سی پیک کے بہت سے پروجیکٹس پر کام رکوایا یا ان کی رفتار کم کی.

چین سے معاہدے کی خلاف ورزی کر تے ہوئے سی پیک قرضوں کی تفصیل آئی ایم ایف کو فراہم کی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری دان کی، اب اور حکومت بے چاری کیا کرے، اگر ہماری ان قربانیوں کے بعد بھی مغرب ہماری حکومت گرانا چاہتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، بد دعا ہی دے سکتے ہیں۔

قیامت کے اس نامے کی قطعیت سے تصدیق یا تردیدہم تو خیر کیا کریں گے، وزیرِ داخلہ شیخ رشید بھی اس خط سے آگاہ نہیں، پارلیمنٹ بھی بے خبر ہے، ڈیفنس کمیٹی کو بھی کچھ معلوم نہیں، اور سب سے بڑھ کر، قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے کو بھی اس بارے میں کچھ علم نہیں۔

بات یہ ہے کہ قومی غیرت و حمیت، خود داری اور اصول پسندی جیسے اوصاف حمیدہ اگر خان صاحب میں موجود ہیں تو یہ قوم کی بلند بختی ہے، مگر معروضی حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ بجائے ان خوبیوں کے مظاہرے کا آغاز دنیا کی واحد سپر پاور سے کیا جائے.

پہلے ان کی بتدریج مشق کر لی جائے، اور ملک کے اندر ہی کر لی جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ مثلاً، اگلی دفعہ جب خان صاحب کو کوئی بلیک میل کرنے کی کوشش کرے اور قومی اسمبلی میں اپنی چار سیٹوں کے بدلے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ مانگے تو خان صاحب اسے کہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، Absolutely Not۔