این اے 71 کا مقدمہ

September 19, 2013

بھٹو دور میں نواب اکبر بگٹی کو گرفتار کرنا خاصا مشکل ہوگیا تھا کوئی پولیس افسر انہیں گرفتار کرنے کیلئے جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا بلکہ گرفتاری کے نام پر بہانے بازیاں ہو رہی تھیں بالآخر انہیں ایک ڈی ایس پی خلاص خان نیازی نے گرفتار کیا۔ جب خلاص خان نیازی، اکبر بگٹی کی گرفتاری کیلئے پہنچا تو نواب صاحب نے پہلے ہاتھ ملایا اور اس کی بہادری پر اسے داد دی۔ بگٹی صاحب گورنر بنے تو انہوں نے خلاص خان کو ایس پی بنا دیا حالانکہ وہ مستعفی ہونے کیلئے تیار تھے۔ داؤد خیل میانوالی سے تعلق رکھنے والے اس ڈی ایس پی کا نام پولیس کے انتہائی بہادر افسروں میں لیا جانے لگا۔ آج برسوں بعد اسی بہادر ڈی ایس پی کے فرزند جنرل ثناء اللہ نیازی کو سوات میں شہید کر دیا گیا ہے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی شہید اپنے باپ کی طرح بہادر آدمی تھا، اس نے بہادری میں وطن عزیز کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کیا۔ این اے 71 کے قصبہ داؤد خیل کے قبیلہ علاول خیل سے تعلق رکھنے والے جرنیل ثناء اللہ نیازی کی شہادت پر پوری قوم دکھی ہے اور خاص طور پر فوج میں بہت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ثناء اللہ نیازی سمیت دیگر افسران کی شہادتوں کے بعد فوج طالبان سے مذاکرات کے بالکل خلاف ہوچکی ہے۔ یوں طالبان کے خلاف بڑے مقدمے کی ابتداء این اے 71 کے رہائشی جنرل ثناء اللہ نیازی شہید کے باعث ہوئی ہے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی شہید کا ایک بھائی رحمت اللہ نیازی کوئٹہ بطور ڈی آئی جی فرائض انجام دے رہا ہے جبکہ ایک بھائی امین اللہ نیازی داؤد خیل سے ناظم بھی رہ چکے ہیں اور آج کل پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں۔
جنرل الیکشن میں عمران خان این اے 71 سے امیدوار تھے، ان کی پوری مہم عائلہ ملک نے چلائی۔ اس دوران عائلہ ملک اپنی سیاسی قابلیت کے باعث اتنی مقبول ہو گئیں کہ این اے 71 کے تمام لوگ انہیں اپنی لیڈر سمجھنے لگے مگر پھر کسی خاص جگہ پر یہ سوچا گیا کہ عائلہ ملک کو کسی صورت میں آگے نہیں آنے دیا جائے گا۔ آج وہی عائلہ ملک جو این اے71 کی مقبول ترین سیاسی شخصیت تھیں، انصاف کیلئے دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ طالبان کے خلاف غم وغصے کی ابتدا کا مقدمہ این اے 71 کے رہائشی جنرل ثناء اللہ نیازی کی شہادت کے باعث ہوا ہے۔ اسی طرح ن لیگ کی سیاسی قیادت کے خلاف مقدمے کی ابتداء بھی این اے 71 سے ہوئی۔ اس سیاسی مقدمے کی پیروی این اے 71 کے ایک چھوٹے سے شہر کالا باغ کی رہائشی عائلہ ملک کر رہی ہیں۔ منگل کے روز عائلہ ملک تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک وفد کے ہمراہ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہوئیں اس وفد میں قومی اسمبلی کے میانوالی سے رکن امجد علی خان اور ڈاکٹر بابر اعوان بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے بطور وکیل حاضری دی۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران اس مرحلے پرتحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ”شفاف انتخابات کے بغیر جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی جبکہ غیرمتنازع انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے“چیئرمین شاہ محمود قریشی کامزید کہنا تھا کہ ”عام انتخابات کی طرح ضمنی انتخابات میں بھی انتخابی بے ضابطگیاں ہوئیں اور این اے 71 کا پورا انتخاب چرایا گیا، عائلہ ملک کو راستے سے ہٹانے کیلئے ڈگری کا ایشو بنایا گیا۔ضمنی انتخاب کے روز انتخابی ضابطہٴ اخلاق کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، ہم پوری نیک نیتی سے ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو رہے ہیں کہ ہمیں این اے 71 کے حوالے سے انصاف دیا جائے“۔
قریشی صاحب کی باتیں درست ہیں کہ وہ تمام تحریری اور وڈیو ثبوت ساتھ لائے ہیں مگر انصاف کی منزل ہنوز دور نظر آتی ہے اگرچہ ان کے ہمراہ کھڑے ممتاز ماہر قانون ڈاکٹر بابر اعوان نے حافظ آباد کے ایک حلقے کا حوالہ بھی دیا جہاں دوبارہ الیکشن ہوا تھا۔ڈاکٹرصاحب سے بڑی معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہاں معاملہ اور تھا وہاں محبت اور کے ساتھ تھی یہاں مخالفت عائلہ ملک کے ساتھ ہے۔ عائلہ ملک آج بھی الیکشن کمیشن کے سامنے کہہ رہی ہیں کہ ”انہیں کسی بھی ٹرائل کے بغیر نااہل قرار دے دیا گیا اور انہیں اس نااہلی سے قبل کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے باہر عائلہ ملک نے میڈیا کو بتایا کہ نہ صرف وہ ایک پڑھے لکھے گھرانے کی پڑھی لکھی خاتون ہیں بلکہ ان کی والدہ محترمہ فریدہ ملک بھی گریجویٹ ہیں“۔ یہ الگ بات کہ آج کل فریدہ ملک اپنی دو بیٹیوں کی لڑائی سے پریشان ہیں۔
جس عائلہ ملک نے مجھے آج سے چار مہینے پہلے کہا تھا کہ انہیں (ن) لیگ کبھی آگے نہیں آنے دے گی اسی عائلہ ملک کی جانب سے پیش کردہ کچھ ثبوت اس طرح ہیں مثلاً پولنگ اسٹیشن نمبر 66 میں جنرل الیکشن میں 249 ووٹ جبکہ ضمنی میں 999 ووٹ ڈالے گئے۔ قریباً بارہ سے زائد پولنگ اسٹیشنوں پر جنرل الیکشن میں 54 فیصد جبکہ ضمنی الیکشن میں 72 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ عائلہ ملک نے پنجاب حکومت کے خلاف ایسے ثبوت الیکشن کمیشن کو پیش کئے ہیں جن سے بظاہر انکار ممکن نہیں مگر پتہ نہیں الیکشن کمیشن کے انصاف کا چراغ کدھر جلتا ہے کیونکہ 88 پولنگ اسٹیشنوں کے تحریری نتائج ہی پولنگ ایجنٹس کو فراہم نہیں کئے گئے تھے۔ صوبائی حکومت کی جگہ جگہ مداخلت کے ویڈیو ثبوت بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ نااہلی کے سفر میں پتہ نہیں جمشید دستی اور دیگر کی ڈگریاں کیوں نہ نظر آسکیں۔ آئین پاکستان کے تحت عائلہ ملک الیکشن کمیشن آف پاکستان تو پہنچی ہیں انہیں ایک لمحے کیلئے سوچ لینا چاہئے تھا کہ ابھی پہلے ہی بہت مقدمے زیرالتواء ہیں اور الیکشن کمیشن پر بہت بوجھ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سید فیصل رضا عابدی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی 125 سیٹیں چرائی گئی ہیں۔ آج کل پھر سے سروے سیاست جاری ہے۔
این اے 71 کے مقدمے کے ساتھ ہی مجھے عائلہ ملک کی قسمت پر بھی دکھ ہوتا ہے۔ پہلے اس کانام خواتین کی فہرست میں نہ آسکا پھر اسے بغیر ٹرائل کے نااہل قرار دے دیا گیا، جب میں وہ نااہل ہوئیں تو این اے 71میں خاص طور پر عورتوں میں صف ماتم بچھ گئی تھی، عائلہ ملک کی نااہلی پر این اے 71 کا پورا حلقہ پانچ روز تک صدمے سے باہر نہیں نکل سکا تھا پھر سرکار کی طاقت نے عائلہ ملک کے کزنوں عماد ملک، فواد ملک اور بہن کو بھی اس کے خلاف کر دیا تھا۔ قیوم طاہر کا شعر برمحل ہے کہ
سجی ہیں راکھ سے آنکھیں بھی اور مٹی بھی
جلے ہوئے سبھی خیمے، دھواں سفر سارا