حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟

May 16, 2022

گزشتہ ہفتے کراچی میں ہونے والے سانحہ 12مئ2007کی ایک اور برسی بیت گئی۔ یہ برسی اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ قاتل مقتول سب ساتھ ہیں، اس سے پہلے ماضی میں کوئی نہ کوئی مقتول کسی نہ کسی طرح اپوزیشن میں ہوا کرتا تھا، اس بار اس سانحہ سے متاثر تمام جماعتیں حکومت کا حصہ ہیں۔ پی پی پی، اے این پی، بلوچ قوم پرست جماعتیں، مسلم لیگ نواز سب کی سب ایک ایسی حکومت کا حصہ ہیں جس میں ایم کیو ایم بھی برابر کی حصے دار ہے۔ اور پھر پاکستان کی بار کونسلز کا بھی اس حکومت کے بننے میں اہم کردار ہے کیوں کہ اگر بار کونسلز عمران خان حکومت کے خلاف متحرک نہ ہوتیں تو شایدوہ آج بھی حکومت میں ہوتے اور اپنی من مانیاں کر رہے ہوتے۔

12مئی 2007کے روز عدلیہ کی آزادی اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے جانیں قربان کرنے والے وکلاء اورسیاسی کارکنوں نے قربانیوںکی ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیںملتی، مگر ان شہید کارکنوں کے ورثاء کو کیا ملا ؟ کیا کوئی آج ان کا پُرسانِ حال ہے؟ سیاسی جماعتوں نے ان شہدا کے ورثا سے وفا نہیں کی مگر سانحہ 12مئی کے شہداکے ورثاکو تاحال انصاف نہ ملنا بھی باعثِ تشویش ہے، 15سال بیت گئے متاثرین حکومتوں کا حصہ رہے مگر شہداکے خاندانوںکو انصاف نہ مل سکا، سوال یہ ہے کہ شہدا کے خون سے انصاف میں مزید کتنی دہائیاں لگائی جائیں گی ؟ سانحہ 12 مئی پر فتح کے مُکے لہرانے والا آمرقانون کی گرفت سے آزاد کیوں ہے ؟ اس وقت کا مشیر داخلہ جس کے حکم پر سابق چیف جسٹس کے راستےپرکنٹینر لگا کر ان کے راستے بند کئے گئےتھے وہ آزاد کیوں ہے ؟ اس وقت کی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار آزاد کیوں گھوم رہے ہیں ؟ کیا عدلیہ کی آزادی کےلئے قربانیاں دینے والوں کو انصاف کی بھیک مانگنا پڑے گی ؟

سانحہ 12مئی 2007 پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کی الماریوں میں رکھا ایک ایسا مقدمہ ہےجو اپنے منصفین کی مہربانیوں کا منتظر ہے۔ شہر کراچی کے مظلوم متاثرین نے انصاف کی سربلندی اور آزاد عدلیہ کے وقار کیلئے اس وقت کے آمر اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا تھا اور کراچی پورا دن فلسطین بنا رہا جہاں مظلوم گولیوں سے چھلنی ہوتے رہے، پاس کھڑےقانون پر عمل اور تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے اہلکار تماشہ دیکھتے رہے، خواتین کے ہاتھوں سے سونا لوٹ لیا گیا، دن دہاڑے عدلیہ کی آزادی کیلئے نکلنے والی خواتین کی توہین کی گئی اور مردوں کے سینوں پر گولیاں برسائی جاتی رہیں جبکہ حاکمِ وقت جشن مناتے رہے۔ اس واقعہ کو 15 سال بیت گئے مگر انصاف ہے کہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پاکستان کے عوام ایک بار پھر مطالبہ کرتے ہیں اپنی عدالتوں سے کہ خدارا 12مئی کے شہداء کے حق میں انصاف کر کے انھیں سرخرو کردیں۔ سانحہ 12مئی کے متاثرین کے ساتھ اگر انصاف نہ کیا گیا تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔دنیا میں ان ہی قوموں نے ترقی کی ہے جن کے ہاں انصاف کا مضبوط اور مربوط نظام موجود ہے ۔جس معاشرے میں عدل نہ ہواور مظلوم عدل کی تلاش میں دردر پھرتا ہووہ مہذب معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔اگر ہم اپنا نام دنیا کی مہذب اور تعلیمیافتہ قوموں میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عدل کی فراہمی کامربوط نظام قائم کرنا ہوگا۔

12 مئی کا قتلِ عام ہو یا سانحہ بلدیہ ٹائون، ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں محنت کشوں کا خون بہت سستا ہے، ان کے قاتل اکثر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یہ سوال شدت سے کیا جا نے لگا ہے کہ عوام کی دادرسی کون کرے گا، تاہم، موجودہ عدلیہ کےبعض فیصلوں نے قوم میں ایک نئی امید پیدا کی ہے اور اب یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ 12مئی کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور اس سانحہ کے متاثرین کو 16ویں برسی سے پہلے انصاف دلوائے گی۔

مِٹ‌جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشراٹھا کیوں نہیں دیتے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)