نتیجہ آپ کے سامنے ہے

May 17, 2022

انسانی دماغ اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس پر ہر وقت دو تین بڑی بڑی خواہشات کا غلبہ رہتا ہے۔ دولت کی خواہش اور عورت کی خواہش۔ انسانوں اور جانوروں میں جذبات اور خواہشات والے دماغ کے حصے بالکل ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ ان غالب خواہشات کے تحت انسان ہر وقت ایک ٹرانس میں رہتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے، جیسے کہ گاڑی کا ڈرائیور بات چیت، سگریٹ نوشی اور میوزک سننے جیسے تمام کام کرتا تو ہے لیکن اس کا اصل کام ڈرائیونگ ہی ہوتا ہے۔ تو ایک غالب خواہش میں ڈوبا اور کراہتا ہوا دماغ بھلا ہدایت اور اس نور تک کیسے پہنچے، جس سے عقل میں بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی کا چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس ایسی ہی ایک خواہش تلے دبا ہوا تھا ؛حتیٰ کہ وہ اس کا کیریئر کھا گئی۔ ایک خواہش ہمہ وقت باقی تمام خواہشات اور عقل پہ غالب ہوتی ہے۔ بھوک لگی ہو تو خوراک ہر چیز سے زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ جتنی دیر آپ غصے کی حالت میں ہوں گے، باقی تمام چیزیں نظر انداز ہو جائیں گی۔ یہی حال انتقام کا ہے۔ لالچ کے دوران بھی یہی ہوتا ہے۔ ایک فیصد سے بھی کم لوگ ہوتے ہیں، جن میں دور اندیشی ہوتی ہے۔وہ صحیح اور غلط کا فیصلہ اپنی دوررس عقل سے کرتے ہیں۔ باقی شارٹ ٹرم میں سوچتے ہیں۔

جس وقت Eventsوقوع پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو باقی 99فیصد لوگ حالات کے رخ پہ بہتے چلے جاتے ہیں۔ اچانک بجلی چلی جائے اوردوچار لوگ دکان لوٹنا شروع کر دیں تو باقی بھی ان کی پیروی کرتے ہیں۔ سوائے ان کے کہ جنہوں نے اپنے نفس پر اخلاقی قوت کا قفل مضبوطی سے لگا رکھا ہو۔اپنی قوم میں ابرہام لنکن واحد تھا، جو دور رس عقل رکھتا تھا ؛چنانچہ اس نے غلامی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اقبالؔ نہ ہوتا تو مرعوبیت کا مارا مسلم برصغیر انگریز کے مقابل جدوجہد کرنے کا خواب بھی نہ دیکھ سکتا۔

جب جذبات غالب آتے ہیں تو ہجوم ڈنڈے مار کے ایک لڑکے کو قتل کر دیتاہے۔ یہ حال ہے دماغ پر خواہشات اور جذبات کے غلبے کاکہ انسان اپنی یقینی پھانسی کو بھی فراموش کر دیتاہے۔ افراد ہی نہیں، ملک اور قوم بھی ایک جذبے تلے دب جاتےہیں۔ ہٹلر نے اپنی قوم پاگل کر دی تھی۔ آج بھارت اس خواہش تلے دبا ہوا ہے کہ اس نے پاکستا ن کو فتح کر کے صدیوں کی غلامی کا بدلہ لینا ہے۔ نتیجہ بعد میں ابھی نندن کی صورت میں نکلتا ہے۔ جب ہجوم والا ماحول بن جاتاہےتو پھر ڈینگ نہ مارنے والا بزدل کہلائے گا،بزدل کون کہلوانا چاہتاہے۔تقسیم ہوئی تو بھارت کا رویہ پہلے دن سے ہی جارحانہ تھا۔ پھر افغانستان میں یکے بعد دیگرے دو عالمی طاقتوں نے مداخلت کی تو پاک فوج کا کردار بڑھتا چلا گیا۔پہلے دن سے ہی وہ بقا کی انتہائی خوفناک جنگ سے نبرد آزما تھی۔ ایسی جنگجو فوج دنیا میں کسی اور ملک کی نہیں۔ میں پاک فوج کے عشاق میں سے ہوں مگر 25فروری 2018کو اپنے کالم ’’بہت باہر ‘‘ میں عرض کی تھی کہ جو شخص یا ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرے، اسے پسپا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ 2018کے الیکشن سے پہلے کپتان نے فوج کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ اسی لیے انہیں طنزیہ طور پر ’’نکا ‘‘ اور سلیکٹڈ کہا جانے لگا۔ مشرف کے دور میں افغان قومجنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر خوش نہ تھی، تاہم پھر جنرل کیانی کے دور میں پاکستانی فوج نے اپنی ساکھ حاصل کی۔ پھر یہ ساکھ اپنے بامِ عروج پر پہنچی، ا س لیے کہ مشرف کے برعکس جنرل کیانی نے فوج کو سیاست سے الگ کر لیا تھا۔ آج ایک بار پھر فوج پہ تبرا شروع ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب نے جب اپنی درخواست پیش کی تو عسکری قیادت نے اس تصور کو نہایت خوش دلی سے قبول کیا کہ آئندہ وزیرِ اعظم اس کا تابع فرمان ہو۔

کپتان کی اپنی منفرد جہات تھیں۔ ایک ایسا شخص، زرداریوں اور شریفوں کے برعکس جس کا تاثر یہ تھا کہ وہ دولت کا بھوکا نہیں ؛چنانچہ ساری نوجوان نسل اس سے عشق کرنے لگی۔تیاری مگر تھی نہیں۔ کپتان نے اعلان کیا تھا کہ قرض لینے سے پہلے وہ خودکشی کر لے گا۔ ساڑھے تین سال میں بیس ہزار ارب روپے کے قرضے لیے گئے۔ فوجی قیادت نے محسوس کیا کہ کپتان اب ایک بوجھ ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کر نے کی کوشش میں اس نے نیوٹرل رہنے کا فیصلہ کیا۔ باقی تاریخ ہے۔ 25فروری 2018ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’فوج دوبارہ نامقبولیت کے راستے پر چل سکتی ہے۔ اس وقت میری یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ اس لیے کہ جس وقت واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں تو جس طرف کی ہوا چل رہی ہوتی ہے‘ ساری مخلوق اسی طرف بہتی چلی جاتی ہے۔سوائے‘ ایک فیصد لوگوں کے‘ جو اپنا دماغ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ہونا یہ چاہئے تھا کہ فوجی قیادت کپتان سے یہ کہتی کہ اپنی سیاسی جدوجہد سے اگروہ اقتدار حاصل کرلے تو فوج ضرور اسے سر آنکھوں پہ بٹھائے گی۔ ہوا مگر اس کے برعکس۔ عسکری قیادت یہ سمجھ رہی تھی کہ کپتان اب اس قدر نامقبول ہو چکا ہے کہ اس کی حکومت ختم ہونے کا ری ایکشن نہیں ہوگا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔