تعیشات کی درآمد پر پابندی

May 20, 2022

قومی معیشت اپنی تاریخ کے جس سنگین ترین بحران سے دوچار ہے، اس سے نجات پانے کیلئے انتہائی غیرمعمولی اقدامات یقیناً ناگزیر ہیں۔ غیرضروری اور پُرتعیش یعنی ایسی اشیاء کی درآمد پر پابندی جن کے بغیر زندگی میں کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا اور کاروبارِ حیات کسی بڑی دشواری کے بغیر جاری رکھا جا سکتا ہے، اِن اقدامات میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشت میں بہتری کیسے آئے گی، یہ بات بہت واضح ہے۔ درآمدی بل میں کمی کا مطلب ملکی اخراجات میں کمی ہے جس کے نتیجے میں توازن ادائیگی بہتر ہوتا اور زرمبادلہ کی بچت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ممتاز ماہرینِ معاشیات پچھلے برسوں کے دوران بڑھتی ہوئی معاشی زبوں حالی پر قابو پانے کیلئے پچھلی حکومت کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔ تاہم نئی حکومت نے یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے 80سے زائد پُرتعیش اشیاء کی درآمد پر فوری طور پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ غیر ضروری اور پُرتعیش اشیاء کی درآمد پر مکمل پابندی کا فیصلہ ملک میں زرمبادلہ کے بحران سے نمٹنے کیلئے کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے درآمدی بل میں ماہانہ ایک ارب ڈالر کمی کیلئے ایف بی آر کی تجاویز منظور کرتے ہوئے ایک ہزار سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی دگنی، کاسمیٹکس، موبائل فون، کتے بلیوں کی خوراک سمیت 80سے زائد مصنوعات کی درآمد پر پابندی لگانے، بجلی سے چلنے والے گھریلو آلات پر 50فیصد اور ٹائلز کی درآمد پر 40فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ان تمام اقدامات کی حتمی منظوری اقتصادی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ سے لی جائے گی۔ وزیراعظم کی یہ توقع درست نظر آتی ہے کہ ان اقدامات سے ماہانہ ایک ارب ڈالر زرمبادلہ کی بچت اور روپے کی بےقدری میں کمی ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں تشویش ناک معاشی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ شرکا نے معاشی مشکلات سے نمٹنے کیلئے سخت فیصلے کرنے پر اتفاق کیا اور طے پایا کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران پر قابو پانے کیلئے غیرضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر بلاتاخیر مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ غیر ضروری اور لگژری اشیاء کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ خرچ نہیں ہونے دیں گے۔ ذرائع کے مطابق غیرضروری اشیاء کی درآمد پر پابندی سے روپے کی قدر میں مزید کمی نہیں ہوگی۔ بلاشبہ پاکستانی سکے کی قدر میں مسلسل کمی قومی معیشت کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سلسلے کو روکنے کیلئے مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر جو ایک ماہ پہلے کم و بیش 188روپے کا تھا گزشتہ روز 200روپے سے تجاوز کرگیا۔ یہ صورت حال زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی اور مہنگائی میں ہوش رُبا اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ کی مدت کا زرمبادلہ قومی خزانے میں باقی رہ گیا ہے۔ تاہم امید ہے کہ غیرضروری درآمدات پر مکمل پابندی کے بعد ایک ارب ڈالر ماہانہ کی بچت روپے کی قدر بڑھانے اور زرمبادلہ کی صورت حال بہتر بنانے میں فوری طور پر معاون ثابت ہوگی جبکہ دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے اور وزیر خزانہ نے اس کی کامیابی کے حوالے سے اچھے امکانات کا اظہار کیا ہے جس کے بعد دوست ملکوں کا تعاون بھی متوقع ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا دورہ امریکہ بھی امید افزاء دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی حکام نے معاشی بحالی میں معاونت کے واضح اشارے دیے ہیں۔ لہٰذا یہ توقع بےجا نہیں کہ اگر ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا ختم ہوجائے اور موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت کی تکمیل تک اندیشوں سے پاک ماحول میں کام کرنے کا موقع ملے تو حالات میں تیزی سے بہتری لائی جاسکے گی۔