ہم شرمندگی کا اظہار کب کریں گے؟

May 26, 2022

آج 26 مئی کوآسٹریلیا میں نیشنل سوری ڈے (قومی یومِ معافی) منایا جارہا ہے، ہر سال آج کے دن آسٹریلیا کے سفید فام اپنے بڑوں کے اس ناروا سلوک پر دُکھ، شرمساری اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں جو یورپ آمد کے بعد آسٹریلیا کے اصلی قدیمی باشندوںکے خلاف روا رکھاگیا۔ تاریخی طور پر سرزمین آسٹریلیامیں انسانی آبادی کے آثار 48ہزار سال قبل کے ہیں۔یورپی مہم جوئی کے وقت مقامی قدیمی آبادی کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی جو صرف 150سال میں معدوم ہوتی چلی گئی، سفید فام افراد نے آسٹریلیا میں اپنا قبضہ جمانے کیلئے مقامی آبادی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے، قدیمی افراد کی مختلف طریقوں سے نسل کشی کی گئی، ان کی جائیداد کو ہتھیا لیا گیا۔آسٹریلیا میں 1970ء تک ریاستی سطح پر ایسی ظالمانہ پالیسیاں رائج تھیں جن کے تحت قدیمی آسٹریلوی لوگوں کے بچوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کردیا گیا،پولیس کو یہ اختیار حاصل تھا کہ یہ بچے اپنے گھر میں ہوں، سڑک پر ہوں یاتعلیمی اداروں میں، انہیں اپنی تحویل میں لے لے، یہ چوری شدہ بچے جنہیں تاریخ ’’اسٹولن جنریشن‘‘کا نام دیتی ہے، کبھی اپنے گھرانوں کو واپس نہیں لوٹ سکے، ان معصوم بچوں کو والدین سے چھین کر سفید فام یورپی لوگوں کے حوالے کردیا گیا جہاں ان پر اپنے آبائی کلچر، زبان اور رسم و رواج پر عمل پیرا ہونے کی پابندیاں عائد تھیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق آج بھی 17ہزار سے زائد آسٹریلوی باشندوں کا تعلق اسٹولن جنریشن سے ہے، مغربی آسٹریلیا کی نصف سے زائد آبادی چوری شدہ نسلوں پر مشتمل ہے، تاہم آسٹریلیا میں انسانیت کا درد رکھنے والوں نے محسوس کیا کہ ماضی کے اس بیہمانہ ظلم کے اثرات نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں،آنے والی نسلوں کومزید اس دُکھ، درد اور تکلیف کی کیفیت سے بچانے کیلئے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں، انہوں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ تاریخ کے اس ظلم کا ازالہ کرنے کیلئے قدیمی آبادی سے سرکاری طور پر معافی مانگی جائے۔ اس حوالے سے ایک تحقیقاتی رپورٹ ’’بِرنگ دیم ہوم‘‘انہیں گھر واپس لاؤکے عنوان سے 26مئی 1997کو شائع ہوئی جس کی مناسبت سے پہلا یوم معافی اگلے برس 1998ء میں منایا گیا ،یہ رپورٹ آسٹریلوی پارلیمنٹ میں بھی پیش کی گئی، اس رپورٹ میں مقامی قدیمی آبادی سے ہونے والے بہیمانہ سلوک پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سفارش کی گئی کہ مقامی بچوں کو سفید آسٹریلوی ثقافت میں ضم کرنے کے ارادے سے انہیں ان کے خاندانوں سے الگ کرنے کے ظالمانہ فعل پرریاستی اور وفاقی حکومتوں کو باضابطہ معافی مانگنی چاہئے،پارلیمنٹ کے فلور پر آسٹریلیا کے مقامی لوگوں، خاص طور پر چوری شدہ نسلوں اور ان کے خاندانوں اور برادریوں سے اظہار تاسف کیا گیا، اس پیش رفت کو انسانی حقوق کیلئے سرگرم افرادکی جانب سے مفاہمت کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا گیا، تاہم اس وقت کے آسٹریلیا کےوزیر اعظم جان ہارورڈ نے سرکاری طور پرمعافی مانگنے سے معذرت کرلی لیکن دس سال بعد وزیراعظم کیون رڈ نے 13فروری 2008کو حکومت اور آسٹریلوی عوام کی جانب سے باقاعدہ معافی نامہ جاری کیا اور یوں آسٹریلیا میں قومی سطح پر نیشنل سوری ڈے منانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔آج آسٹریلیا بھر میں یوم ِ معافی منانے کیلئے مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، تعلیمی اداروں کے بچوں میں شعور اجاگر کرنے کیلئے مختلف مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، چوری شدہ نسلوں سے اظہارِ یکجہتی کرنے کیلئے موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں، میڈیا پرشرمساری کا اظہار کرنے کیلئے خصوصی پروگرام نشر کئے جاتے ہیں،قومی ہم آہنگی کیلئے قدیمی آبادی کے رہنماؤں کومختلف تقاریب میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے ،آج کے دن آسٹریلیا کا ہر شہری قدیمی باشندوں سے معافی طلب کرتا ہے اور اس دکھ دردکو محسوس کرتا ہے جو ان کے بڑوں کے ہاتھوں قدیمی باشندوں کو سہنی پڑی۔میں سمجھتا ہوں کہ آسٹریلیا ہو یا پھر جنوبی افریقہ یا یورپی یونین ،دورِ جدید کی سمجھدار قوموں نے اس حقیقت کو پا لیا ہے کہ امن و سلامتی کا رازایک دوسرے کا احترام کرنے میں پنہاں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں کی اعلیٰ قیادت پرامن بقائے باہمی ، برداشت اور رواداری کی روش اپنا کر ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کررہی ہیں۔ آسٹریلیا نے تو اپنے ماضی کے مظالم پر شرم محسوس کرتے ہوئے نیشنل سوری ڈے منانا شروع کردیا ہے مگر ہم اپنے منفی رویوں پرکب شرمندگی کا اظہار کریں گے ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)