پانی کی قلت: سنگین مسئلہ

May 27, 2022

پانی لازمہ حیات ہے لیکن اس کی کمیابی کا مسئلہ وطن عزیز کو اپنے قیام کے وقت ہی سے درپیش ہے۔ بدقسمتی سے پانی کے ذخائر کی تعمیر کو بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث سیاسی رنگ دے دیا گیا چنانچہ پاکستان نہ صرف پانی بلکہ سستی ہائیڈل بجلی سے بھی محروم ہوتا چلا یا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا گیا ہے کہ سندھ کو تونسہ اور گدو بیراجوں سے پانی کے 46فیصد حصے سے محروم رکھا جارہا ہے اور بلوچستان، سندھ میں اپنے پانی کے تقریباً 84فیصد حصے سے محروم ہے۔ رکن قومی اسمبلی محمد یوسف تالپور کے زیر صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس کا یہ بنیادی نکتہ تھا جنہوں نے پنجاب میں پانی کے نقصان کو ڈاکہ قرار دیتے ہوئے سفارش کی کہ پانی کی تقسیم 1991کے معاہدے کے پیرا 2کے مطابق ہونی چاہیے۔رکن قومی اسمبلی خالد مگسی نے کہا کہ جدید ترین ہائیڈرو لوجیکل پیمائش کے نظام ایکوسٹک ڈوپلر کرنٹ پروفائلر (اے ڈی سی پی) کے استعمال کے باوجود صوبے، خاص طور پر پنجاب اور سندھ، اپنے اپنے مفادات کے لحاظ سے پوزیشنیں تبدیل کر رہے ہیں جس سے شکوک و شبہات اور اعتراضات پیدا ہورہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان پانی کی قلت سے دوچار ہے، اقوامِ متحدہ کی ’’گلوبل لینڈ آؤٹ لک‘‘ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 23ممالک میں شامل ہے جنہیں گزشتہ دو برسوں سے خشک سالی کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوری دنیا اور پورا پاکستان ہی پانی کی قلت کا شکار ہے تو کیا ہمیں آپس میں الجھنا چاہیے یا اس مسئلے کا فوری، موثر اور دیرپا حل تلاش کر نے کی سعی کرنی چاہیے، ہم نے اب بھی ہوش مندی سے کام نہ لیا اور پانی کے ذخائربڑھانے اور سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے منصوبے شروع نہ کیے تو ہماری بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998