سپر ٹیکس: مثبت اور منفی پہلو

June 26, 2022

ملک کی بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کیے جانے کے فیصلے پر ملے جلے ردعمل کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس حوالے سے درست رائے اسی وقت قائم کی جاسکتی ہے جب اُن غیرمعمولی حالات کو پیش نظر رکھا جائے جن میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔پاکستانی معیشت بین الاقوامی حالات اور ماضی کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں جس شدید بحران سے دوچار ہے وہ کوئی راز نہیں۔ پچھلے پونے چار سالہ دور میں مستحکم معاشی حکمت عملی کے فقدان ، وزرائے خزانہ کی بار بار تبدیلی، سی پیک سمیت ترقیاتی سرگرمیوں کی بندش ، قرضوں کے بوجھ میں تاریخی اضافے نیز گندم اور چینی کے اسکینڈل اورایل این جی کے سستے سودوں کے مواقع ضائع کیے جانے سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ۔ پھر کووڈ کی وبا نے پوری دنیا کو کساد بازاری سے دوچار کیا جبکہ روس یوکرائن جنگ نے تیل اور گیس کی عالمی سطح پر شدید قلت پیدا کردی۔اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر مالی وسائل درکار ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈاس حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔دوسرے مالیاتی اداروں اور ممالک کا تعاون اس کی ضمانت کے بغیر نہیں ملتا۔ پچھلی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کرکے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا۔ اس سنگین صورت حال سے ملک کو نکالنے کیلئے موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بحران سے نکلنے کیلئے ملکی وسائل میں اضافہ کرے۔ اس ضمن میں تازہ ترین اقدام صرف آئندہ مالی سال کیلئے13شعبوں کی بڑی صنعتوں پر اضافی 10فیصد جبکہ دیگر تمام شعبوں کی صنعتوں پر 4فیصد اضافی سپر ٹیکس کا عائد کیا جاناہے۔اس کی مکمل تفصیلات منظر عام پر آچکی ہیں تاہم مختصر کیفیت یہ ہے کہ انفرادی سطح پر اور کمپنیوں کی 15کروڑ روپے سے 20کروڑ روپے کی آمد ن پر ایک فیصد ، 20کروڑ روپے سے 25کروڑ روپے تک کی آمدن پر 2فیصد ، 25کروڑ روپے سے 30کروڑ روپے کی آمدن پر 3فیصد اور 30کروڑر وپے سے زائد کی آمدن پر 4فیصد سپرٹیکس جبکہ 25لاکھ دکانوں پر 3ہزار روپے سے 10ہزار روپے تک فکس ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ یوںآئی ایم ایف سے معاہدے کے امکانات واضح ہونے کے بعد چین کے مالی تعاون کا آغاز ہوگیا ہے اور چینی بینکوں کے کنسورشیم کے فراہم کردہ دو ارب تیس کروڑ ڈالر قومی خزانے میں جمع ہوگئے ہیں اور مزید ذرائع سے تعاون کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں ۔تاہم سپر ٹیکس پر کاروباری طبقے کا فوری ردعمل بالعموم نہایت منفی ہے ‘ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی کہا ہے کہ سپر ٹیکس سے صنعتیں بند ہوجائیں گی جبکہ وزیر اعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس طرح وسائل امیروں سے غریبوں کو منتقل ہوں گے اور انہیں عام آدمی کو زندگی بہتر بنانے کی خاطر استعمال کیا جائے گا۔عوامی حلقوں میں اس اقدام کا خیر مقدم کیے جانے کے باوجود خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بوجھ بالآخر عام صارف ہی کو منتقل کردیا جائے گا لہٰذا حکومت کو اس خدشے کا مؤثر سدباب کرنا چاہیے۔ کاروباری طبقے کے منفی ردعمل سے بچنے کیلئے ضروری تھا کہ اس فیصلے سے پہلے اس کے معتمد نمائندوں کو پوری طرح اعتماد میں لیا جاتا لیکن بہرحال اب یہ کام بھلے طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے اور کاروباری حضرات کو بھی ملک کی سلامتی کی خاطر محض ایک بار عائد کیے جانے والے اس ٹیکس کو خوش دلی سے ادا کرنے پر رضامند ہوجانا چاہیے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالکان پر سپر زرعی ٹیکس کیوں عائد نہیں کیا گیا جبکہ اس طرح قومی خزانے کو خطیر مالی وسائل حاصل ہوسکتے ہیں اور صنعتوں پر لگائے گئے سپر ٹیکس میں بھی نمایاں کمی کی جاسکتی ہے۔