ٹیکس نیٹ میں توسیع

June 27, 2022

وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق حکومت نے رئیل اسٹیٹ کے بروکرز، بلڈرز، کار ڈیلرز، ریسٹورنٹ اور سیلونز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی شعبے سے زبردستی نہیں ہوگی، چھوٹے دکانداروں اور جیولرز کی تنظیموں سے مشاورت کی ہے، جلد پروفیشنل افراد کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائیں گے۔ فی الحقیقت اس نوعیت کے اقدامات اگر ماضی کی حکومتوں نے کرلیے ہوتے تو آج پاکستان بیرونی قرضوں کی بیساکھیوں کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول اتحادی حکومت نے فوری انتخابات کے بجائے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر مشکل فیصلوں کا راستہ منتخب کیا ہے اور حکومتی اقدامات ان کے اس اظہار خیال کی توثیق کرتے ہیں۔کسی بھی ملک کی معاشی خود مختاری کیلئے ضروری ہے کہ اسے اس کے اپنے وسائل سے چلایا جائے۔ اس کا اہم ترین ذریعہ شہریوں کی جانب سے اپنی آمدنیوں پر ادا کیا جانے والا ٹیکس ہوتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تمام شہری اور کاروباری ادارے اپنے حصے کا پورا ٹیکس بالعموم خوش دلی سے اور بروقت ادا کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں حکومتیں انہیں امن وامان اور انصاف سمیت زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرتی اور انہیں مسلسل بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں تاکہ لوگ کسی مشکل کے بغیر اپنی معاشی و سماجی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں ۔ تاہم پاکستان کے قیام کو پون صدی مکمل ہوجانے کے بعد بھی یہ ٹیکس کلچر رواج نہیں پاسکا ۔ انکم ٹیکس ادا کرنے والے بالعموم تنخواہ دار افراد ہیں جبکہ متعدد شعبہ ہائے زندگی اور پیشہ ور افراد ٹیکس دہندگان کے دائرے میں اب تک شامل ہی نہیں کئے جاسکے ہیں۔ اس صورت حال کے باعث ایک طرف بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جو عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہورہا ہے اور دوسری جانب کاروبار مملکت اور ترقیاتی سرگرمیوں کیلئے وسائل بیرونی قرضوں کی شکل میں حاصل کرنے پڑرہے ہیں جن کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب جاپہنچا ہے۔ اس تناظر میں نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ یقینا درست ہے لیکن اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی ضروری ہے کہ یہ طبقات اپنے ٹیکس کابوجھ عام صارف پر منتقل نہ کرسکیں ورنہ نتیجتاً مزید مہنگائی ہوگی اور عام آدمی کیلئے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا روز بروز دشوار تر ہوتا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے پانچ نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ ہی تنخواہ دار افراد پر بھی ٹیکس کا بوجھ بڑھا نے کا اعلان کیا ہے۔ ایک لاکھ تک کی آمدنی کو بجٹ تجاویز میں انکم ٹیکس سے مستثنیٰ کیا گیا تھا جس کی وجہ ظاہر ہے کہ حکومت کا یہ احساس تھا کہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال میں تنخواہ دار افراد سب سے زیادہ مشکل کا شکار ہیں کیونکہ کاروباری اور پیشہ ور لوگوں کی طرح انہیں مہنگائی کے ساتھ ساتھ اپنی آمدنی بڑھانے کی سہولت حاصل نہیں ہوتی۔تاہم اب یہ چھوٹ پچاس ہزار کی آمدنی تک محدود کردی گئی ہے جبکہ اس سے زیادہ آمدنی پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جو ایک لاکھ تک تو بہت زیادہ نہیں لیکن اس سے زائد آمدنی پر بتدریج بہت تیزی سے بڑھتا ہے۔ بجلی گیس پٹرول سمیت تمام ضروریات زندگی کی روز افزوں مہنگائی، علاج معالجے اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات میں مسلسل بے تحاشا اضافے کے پیش نظر تنخواہ دار طبقے کیلئے ٹیکس کی شرح میں یہ اضافے ناقابل برداشت نظر آتے ہیں اور بہتر ہوگا کہ انہیں ابتدائی بجٹ تجاویز کے مطابق ہی رکھا جائے۔ ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں کے مالکان پر بھی سپر ٹیکس عائد کیا جانا وقت کا تقاضا ہے۔ نیز نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری بھی جلد ضروری ہے جبکہ بیرونی بینکوں سے پاکستانیوں کے سینکڑوں ارب ڈالر واپس لانے پر بھی غور کیا جانا چاہیے جس پر مسلم لیگ (ن) اپنے پچھلے دور حکومت میں خاصی حوصلہ افزاء پیش رفت کرچکی تھی۔