پولیو ٹیم پر ایک اور حملہ

June 30, 2022

پولیو ایک خطرناک بیماری ہے جو ویسے تو ہزاروں سال سے موجود ہے لیکن بیسویں صدی میں اس نے سنگین صورت اختیار کر لی۔ یہ کسی کو لگ جائے تو پھر اس کا کوئی خاص علاج نہیں ہے۔ 1950ء کی دہائی میں اس کی ویکسین تیار کی گئی جس کے قطرے بچوں کو پلانا شروع کئے گئے تو اس کے مثبت نتائج نکلے اور نہ دنیا کے ہر ملک میں اپاہج بچوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی۔ عالمی سطح پر اس کے خلاف مہم شروع ہوئی تو بہت سے ممالک پولیو فری ہو گئے۔ پاکستان میں بھی انسداد پولیو مہم عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں میں اپاہج پن کے کیسزبہت کم ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی کوئی نہ کوئی کیس سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اس کی وجہ بعض لوگوں کے توہمات ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ ہم مذہبی عقائد کے خلاف ہے۔ علماء کے فتوئوں اور عملی اقدامات سے مہم میں رکاوٹیں تو کافی دور ہوئی ہیں لیکن دہشت گردوں کو سرکاری ٹیموں پر حملوں کا بہانہ مل گیا ہے۔منگل کو شمالی وزیرستان کی دتہ خیل تحصیل نامعلوم افراد نے انسداد پولیو ٹیم پر فائرنگ کر دی جس سے دو پولیس اہلکار اور ایک پولیو ورکر شہید ہو گئے۔ ایک بچہ زخمی ہوا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے پولیو ٹیم کے تین افراد کی شہادتوں پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا ہے اور وزیر داخلہ سے تحقیقاتی رپورٹ مانگ لی ہے۔ وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے سکیورٹی فورسز اور پولیو ورکروں کے فرنٹ لائن ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ چیلنجز کے باوجود پاکستان کو پولیو فری بنانے کا ہدف حاصل کریں گے۔ ہمیں ہر بچے تک ویکسین رسائی ممکن بنانے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ حکومت پولیو پر قابو پانے کیلئے اپنی سی کوششیں کر رہی ہے لیکن عوام اور سماجی اداروں کو بھی چاہئے کہ اس مہم کو کامیاب بنانے کیلئے اپنا کردار دل جمعی سے ادا کریں۔ مستقبل کی قوم کو عضو معطل بننے سے روکنے کیلئے سب کی شراکت لازمی ہے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998