وفاقی بجٹ کی منظوری

July 01, 2022

قومی اسمبلی نے بدھ کے روز مالی سال2022-23کے لئے وفاقی بجٹ (فنانس بل) کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ مبصرین ایک بامعنی و موثر اپوزیشن کی غیر موجودگی میں تین ہفتے میں ختم ہونے والے بجٹ اجلاس کو محض رسمی کارروائی کےطور پر دیکھ رہے ہیں جس میں قائد ایوان (وزیر اعظم) شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض بھی شریک نہ تھے۔ یکم جولائی2022(یعنی آج)سے شروع ہونے والے مالی سال کے فنانس بل پر اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے ارکان کی قلیل تعداد کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ جو بجٹ10جون کو پیش کیا گیا اسے ترامیم کے ذریعےمکمل طور پر بدل دیا گیا ہے۔ جبکہ وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ مالی بل میں کی جانے والی ترامیم آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے معاہدےکے مطابق ہیں ۔ اجلاس میں نئے مالی سال کے 9,502ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ کا تنخواہ دار طبقے کیلئے ریلیف ختم کرنے اور نئی شرح سے ٹیکس عائد کرنے، 15کروڑ روپے سے زائد آمدن والے اداروں اور افراد پر ٹیکس عائد کرنے ،نان فائلرز کے لئے ٹیکس کی شرح100سے بڑھا کر 200فیصد کرنے کے حوالے سے بطور خاص چرچا ہے۔ فنانس بل میں منظورکردہ ترامیم میں پٹرولیم پراڈکٹ ( پٹرولیم لیوی) آرڈی نینس 1961کی ترمیم کے ذریعے پٹرول ،ہائی سپیڈ ڈیزل ،مٹی کے تیل، لائٹ ڈیزل آئل، ہائی اوکٹین بلینڈ کمپوننٹ (ایچ او بی سی) E10ماحول دوست پٹرول پٹرولیم لیوی کی زیادہ سے زیادہ مالیت30روپے سے بڑھا کر 50روپے لٹر کر دی گئی ہے۔ جبکہ پاکستان میں لیکویفائیڈ پٹرولیم گیس ( ایل پی جی) کی پیداوار پر 30 ہزار روپے فی میٹرک ٹن پٹرولیم لیوی عائد کر دی گئی ہے۔ پٹرولیم لیوی سے 750کی بجائے 855ارب روپے جمع کرنے کا تخمینہ شامل ہے۔ موجودہ حالات میں پٹرولیم ایسا شعبہ ہے جس سے متعلقہ مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے باعث بیشتر ممالک کی معیشتیں منفی طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کے اثرات بطور خاص پیداواریت اور کاروبار کے شعبوں میں منفی طور پر محسوس کئے جا رہے ہیں۔جبکہ ڈالر کی کمی کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ مزید احتیاط کی متقاضی ہو گئی ہے ۔اس کا نتیجہ ملک بھر میں طویل لوڈ شیڈنگ کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے ۔گلوبل وارمنگ نے سونے پہ سہاگہ کا کام کیا اور اس برس شدید گرمی میں ائرکنڈیشنروں اور پنکھوں کا استعمال عام لوگوں کیلئے ممکن نہیں رہا جبکہ کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔روس سے سستے تیل کی خریداری کے حوالے سے وزارت توانائی نے آئل ریفائنریز سے تجاویز طلب کی تھیں جن کے جواب میں کم از کم 5پانچ ریفائنریز کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ 15تا30فیصد سے زیادہ تیل ریفائن کرنے کی استطاعت موجود نہیں، جبکہ مغربی پابندیوں کے باعث روسی تیل کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں وفاقی وزیر خزانہ یہ یقین دلاتے نظر آ رہے ہیں کہ بجٹ دستاویز کی تحت پٹرولیم مصنوعات پر پچاس روپے تک پٹرولیم لیوی کا اختیار استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ کیا ہی اچھا کہ اس اختیار کے استعمال کی واقعتاً ضرورت نہ پڑے۔ 13 بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس سمیت کئی اقدامات سے معقول ریونیو کے حصول کے دعوے بھی اپنی جگہ۔ اہم بات یہ ہے کہ زرعی ترقی ، تعلیم اور پیداواریت کو ترجیح دیتے ہوئے کابینہ سمیت تمام سرکاری محکموں واداروں کے اخراجات میں کمی کی جائے۔ وزرا سادہ طرز زندگی کا نمونہ بنیں اور صاحب وسیلہ افراد اپنی تنخواہیں قومی خزانہ کی نذر کر کے مثالیں قائم کریں۔ قومی تاریخ کے مشکل مراحل میں وطن عزیز سمیت کئی ممالک میں رہبران ملت نے اس نوع کی مثالیں قائم کر کے اپنے ممالک کی تاریخ میں انتہائی قابل احترام مقام حاصل کیا ہے۔