خدمات کا اعتراف، ووٹ کی عزت

July 01, 2022

گزشتہ دنوں سعودی حکومت کی طرف سے پاک فوج کے سربراہ کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازاگیا۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے سعودی عرب کا اعلیٰ ترین اعزازکنگ عبدالعزیز پیش کیاگیا۔

سعودی حکومت کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے لئے یہ اعلیٰ ترین اعزاز ان کی ان خدمات اور کردار کا اعتراف ہے جو انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے ادا کی ہیں۔

اس اعزاز سے پاکستان مخالف عناصر اور طاقتوں کے اس پروپیگنڈے کو شکست ہوئی ہے جو وہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان خلیج پیدا کرنے کیلئے کر رہے تھے۔ سعودی عرب اہم ترین اسلامی برادر ملک ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔

سابق حکومت کی بعض پالیسیوں اور اقدامات سے کچھ ناراضی ضرور تھی۔ لیکن جنرل باجوہ کی مدبرانہ اور مخلصانہ کوششوں سے معاملات سدھر گئے اور غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔

آرمی چیف کے حالیہ دورے کی بہت اہمیت ہے۔ اس دورے میں جنرل باجوہ کی اعلیٰ ترین سعودی قیادت سے اہم ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر بات چیت ہوئی۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت میں اہم کھلاڑی مسلم لیگ (ن) ہے۔ لیکن سوائے کمر تو ڑ مہنگائی کے عوام کیلئے کوئی ہنگامی ریلیف نظر نہیں آرہا۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والی جماعت اپنے کارکنوں کو عزت نہیں دے سکی۔

ووٹ کو عزت دو مگر کس کے لئے، ن لیگ کی قیادت کو یہ بھی واضح کردینا چاہئے۔ دوسری طرف عام فہم معنی تو یہ سامنے آئے کہ ووٹ کی عزت ن لیگی قائدین کیلئے اہم ہے لیکن ووٹ دینے والے کی عزت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اگر غور کیا جائے تو صوبہ کے پی کو (ن) لیگ کی قیادت نے کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ ہزارہ جو کبھی ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، وہاں سے ن لیگی رہنما سردار مہتاب خان عباسی کو وزیراعلیٰ اور گورنر بناکر اس علاقے پر بڑا احسان سمجھا گیا۔

اسی طرح پشاور سے اقبال ظفر جھگڑا کو گورنر بنایا گیا لیکن محدود اختیارات کے ساتھ، پیر صابر شاہ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا مگر ان تینوں شخصیات کو عہدے تو دیے گئے مگر بندھے ہاتھوں کیساتھ دیئے گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ صوبے کی وہ خدمت نہیں کرسکے۔ ان عہدوں کو محدود اختیارات کے ساتھ دینے سے عوام کی تمام ممکنہ خدمات، صوبے میں منشیات کے خاتمے اور قبائلی عوام کی خوشحالی اور پھر قبائلی علاقوں کو ضم کرنے جیسے اہم ترین اقدامات کئے گئے۔ لیکن جب اختیارات ہی محدود ہوں تو ثمرات عام آدمی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔

ان چند روزہ عہدوں نے ان شخصیات کی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا۔ ن لیگی قیادت صرف پنجاب کو پاکستان سمجھتی ہے اس لیے صوبہ کے پی میں پی ٹی آئی کو کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن) ویسے بھی یتیم اور بے بس نظرآتی ہے۔

اے این پی کے دو بار انکار کے باوجود ن لیگ کے پی کے میں اپنا گورنر مقرر نہیں کرسکی۔ حالانکہ ان کے پاس سابق گورنر اقبال ظفر جھگڑا کی صورت میں ایک تجربہ کار اور کامیاب گورنر کی حیثیت کی حامل شخصیت موجود ہے۔ اسی طرح بیت المال کے ایم ڈی کا عہدہ خالی رہا۔

اس عہدے کا حق کے پی کا تھا۔ اور وہاں ان کے پاس علی خان جیسا بے لوث کارکن موجود ہے جس نے مشکل حالات میں پارٹی کا ساتھ دیا اور بے سروسامانی کے باوجود پارٹی خدمت کے لئے پیش پیش رہا ہے کیا ایسے کارکن کا حق نہیں ہے کہ اس کی خدمات کے اعتراف میں اسے عوام کی خدمت کا موقع دیا جائے۔ ایسا ہی سلوک جب پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اپنے کارکنوں اور پارٹی عہدیداروں کے ساتھ کیا تھا تو پھر جو نتیجہ نکلا وہ آج بھی یہ جماعت بھگت رہی ہے۔ ن لیگ کی موجودہ حکومت کو بے بس کہا جائے یا اقتدار کے حصول کیلئے سب کچھ چھوڑنا کہا جائے؟

موجودہ حکومت کا یہ نعرہ کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایابے وزن نظر آرہا ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے کیا بچانا تھا یہاں تو ہر عام آدمی دیوالیہ ہوگیا۔ مہنگائی کا گھوڑا سرپٹ دوڑتا جا رہاہے۔

ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حکومت ٹیکس سرمایہ داروں پر لگائے، صنعتکاروں اور تاجروں پر لگائے لیکن دینا تو عوام نے ہوتا ہے۔ پھر اس غلط بیانی سے حقیقت چھپانے کی ہر کوشش عبث اور بے فائدہ ہے کہ ٹیکس اور ٹیکس اور پھر سپر ٹیکس ان سب کی ادائیگی عام آدمی ہی کریگا۔

بجلی مہنگی ہوتی جارہی ہے بجلی کے لمبے لمبے بل آتے ہیں لیکن اس پر مزید ظلم یہ کہ بجلی ناپید ہےاور لوڈشیڈنگ کا زور ہے۔ پینے کا پانی دستیاب نہیں۔ ٹینکر مافیا نے ایک ٹینکر پانی کی قیمت ہزاروں روپے تک پہنچا دی ہے۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے ہر چیز مہنگی کردی ہے ۔یہ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت نے کیا سوچا ہے کہ آخر اس ظلم کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ حکومت کے دوہی کام نظر آرہے ہیں ایک یہ کہ اپنے اوپر قائم مقدمات ختم کرنے کے اقدامات اور دوسرا مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کیخلاف قائم کئے گئے اکثر مقدمات جھوٹے اور انتقامی نوعیت کے تھے اور اسی لیے تقریباً چار سال تک ان مقدمات پراربوں روپے سرکاری خزانے سے ضائع کرنے، چور اور ڈاکو کے پروپیگنڈے اور ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود کچھ بھی ثابت نہیں ہوسکا تو ایسے مقدمات کو ختم ہونا چاہئے یہ ان کا حق بھی ہے لیکن عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا بھی تو حکومت کا فرض اور عوام کا حق ہے۔ ورنہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا نعرہ بے فائدہ ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ عوام کو ہنگامی بنیادوں پر مہنگائی سے فوری ریلیف دینے، لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور ٹیکسوں میں رعایت کیلئےاقدامات کرے۔ ورنہ حالات خراب سے خراب تر ہو جانے کا خدشہ ہے، آخر عام آدمی کیاکرے گا۔ حکومت کوسوچنا چاہئے۔